اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی صرف بیان بازی کر رہی ہے،خالی بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا،ملک کی معیشت بلکل بیٹھ چکی ہے۔
حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں،صحت اور تعلیم کا شعبہ بہت نیچے چلا گیا ہے،لاتعداد گریجویٹس بیروزگار ہیں جن کو کھپانے کا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں،ایک لاکھ لیبر واپس آ رہی ہے جسے چودہ دن کے لیے قرنطینہ کرنے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں،حکومت ان کو کہاں کھپائے گی،حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ ہے تو سامنے لائے،لوگوں کے پاس کھانے کے لئے لئے کچھ نہیں، تنخواہیں دینے کو پیسے نہیں چار ارب کی لگژری گاڑیاں کیسے منگوا رہی ہے ،یہ گاڑیاں صوبے کے حکمرانوں کے لئے منگوائی گئی ہیں،ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ سولہ لاکھ روپے ہے،اس طرح کی لگژری گاڑیاں منگوانے کی اجازت نہیں دینگے، سندھ حکومت 4 ارب کی رقم سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائیں،ہم دیکھتے ہیں یہ چار ارب روپے کیسے سرکاری ملازمین اور لیڈروں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے، ٹڈی دل کے سپرے کے لیے جہازوں کے پائلٹ باہر سے کیوں منگوا رہے ہیں؟اس وقت تربیت دینے کا مطلب ایسا ہی ہے کہ بھوک لگنے پر گندم بونے جایا جائے،ہم چوالیس سال سے عالمی تنظیم کے رکن ہیں آپ کو پہلے سے تیار رہنا چاہیے تھا ، حکومت کی رپورٹ ہے کہ سینٹری ورکرز کو دینے کے لیے تنخواہ کے پیسے نہیں اور آپ نے چار ارب روپے گاڑیوں کے لیے مختص کر دیا۔
اس آئین کا فائدہ آج تک عام آدمی کو نہیں پہنچا،بچہ آئین سے استفادہ حاصل کرنے کے انتظار میں بوڑھا ہوگیا،لیکن آئین کا پھل صرف چند لوگ کھا رہے ہیں جن میں ہم بھی شامل ہیں،لیکن اس میں عام آدمی شامل نہیں،کراچی کا نالہ صاف کے کرنے کے لئے پیسے نہیں، الحفیظ نامی کمپنی نے مشینری این 95 ماسک کے لئے منگوائی،کیامشینری کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی گئی،دستاویز کے مطابق نجی کمپنی کے لئے مشینری این ڈی ایم اے نے اپنے جہاز پر منگوائی۔
این ڈی ایم اے نے صرف ایک نجی کمپنی کو سہولت فراہم کی،اس طرح تو یہ نجی کمپنی این 95 ماسک بنانے والی واحد کمپنی بن گئی ہے،کیا ایسی سہولت فراہم کرنے کے لئے این ڈی ایم اے نے کوئی اشتہار دیا؟28 کمپنیاں پہلے سے چل رہی تھیں، پھر مشینری منگوانے کی ضرورت کیا تھی؟ ہم چاہتے ہیں ہر چیز میں شفافیت ہو،لگتا ہے سول ایوی ایشن والے پیسے لے کر جہاز چلانے کا لائسنس دیتے ہیں،جعلی لائسنس پر جہاز اڑانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چلتا پھرتا میزائل ہو،ہمیں حکومت کی رپورٹ پر حیرانگی ہوئی،رپورٹ میں کہا گیا جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا۔
حیرت کی بات ہے 15 سال پرانا جہاز اڑایا گیا،رپورٹ میں سارا ملبہ سول ایوی ایشن پر ڈال دیا گیا،سول ایوی ایشن والے وہی ہیں جو پائلٹس کو لائسنس دیتے ہیں،یہ حیران کن ہے کہ جعلی لائسنس کی بنیاد پر جہازوں کی کمرشل پروازیں اڑانے کی اجازت دی گئی،سول ایوی ایشن پیسے لے کر پائلٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے،تو قصور سول ایوی ایشن کا ہوا پائلٹس کا کیا قصور ہے؟اٹارنی جنرل صاحب بتائیں سول ایوی ایشن کے خلاف کیا کاروائی ہونی چاہیے۔
عدالت عظمیٰ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت پی آئی اے، ایئر بلیو اور سرین ایئر لائن کے سربراہوں کو ذاتی حیثیت سے طلب کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سے زاتی حیثیت سے پیش ہوکر جعلی ڈگری والے پائلٹس بابت وضاحت طلب کر لی ہے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ این ڈی ایم اے کو قانونی تحفظ حاصل ہے،ادویات کی منظوری ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی دیتی ہے، مشینری منگوانے میں این ڈی ایم اے نے نجی کمپنی کو سھولت فراہم کی،مشینری پر کسٹم یا ٹیکس نجی کمپنی نے خود جمع کروائی۔
این ڈی ایم اے اسی نجی کمپنی سے این 95ماسک نہیں خرید رہی ہے۔ ممبر این ڈی ایم اے نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ 28 کمپنیوں نے مشینری باہر سے منگوانے کے لئے این ڈی ایم اے سے رابطہ کیا،یہ نجی کمپنیاں این 95 ماسک نہیں بنا رہی تھیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ باہر سے منگوائی جانے والی ادویات کس کو دی جاتی ہیں، ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی نے کہا ہے کہ یہ درآمد کی گئی ادویات جس مریض کو دی جائیں ان کا ریکارڈ رکھا جائے۔
یہ دوا تشویشناک حالت کے مریضوں کے لئے ہے،اگر مریض کے قوائف اکٹھے کرنے شروع کردینگے تو اتنی دیر میں مریض دنیا سے چلا جائے گا،بہتر ھوتا کوائف اکٹھے کرنے کی ذمہ داری سرکاری اسپتالوں کو دی جاتی۔عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر این ڈی ایم اے سے این 95 ماسک کی خریداری،این 95 ماسک کی تیاری،الحفیظ کمپنی سے ادائیگی کی تفصیلات اور ذرائع آمدن و این ڈی ایم اے کی جانب سے درآمد کی جانے والی ادویات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سندھ حکومت کو گجر نالے کی صفائی کیلئے رقم کا بندوبست کرنے سمیت ترقیاتی کاموں کی بجاے چار ارب کی خطیر رقم گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کرنے وضاحت طلب کرتے ہو? معامل? کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی ہے۔