اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کئے گئے شو کاز نوٹس بھی واپس لے لئے جبکہ عدالت عظمیٰ کے سات ججز نے معاملے ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں،
چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے،اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی۔ جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل پر جواب الجواب دئیے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کچھ دستاویزات جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویز سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کروائیں۔مزید یہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے بھی زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول عدالت میں جمع کروائی گئیں۔اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔انہوں نے کہا کہ معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک کو سنتے ہیں۔ عدالت نے منیر اے ملک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، جس پر وکیل جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک اپنے دلائل مکمل کردوں گا۔جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے عدالت پہلے بھی آپ کو دلائل کیلئے21 دن دے چکی ہے۔
منیر اے ملک نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے،سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔منیر اے ملک نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی
برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔اپنے جواب الجواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔منیر اے ملک نے کاہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا،چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل
نے ریفرنس میں لگائے گئے جائیدادوں کے الزامات پر کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی تلاش کے لیے سرچ انجن 192 ڈاٹ کام کا استعمال کیا گیا، اس پر سرچ کرنے کے لیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، ضیاالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جن سیاسی شخصیات کی جائیدادیں سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ
لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائے گا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔منیر اے ملک نے کہا کہ صحافی عبدالوحید ڈوگرنے ایک جائیداد کا بتایا تھا، تاہم اگر سرچ انجن پر اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) نے جائیداد تلاش کیں تو رسیدیں دے دیں۔اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے کاہ کے اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔سماعت کے دوران منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا
کیس کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے لیکن حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔دوران سماعت منیر اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی، مذکورہ کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ نے جان بوجھ کر
جائیدادیں چھپائیں جبکہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، گزشتہ روز کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔منیر اے ملک نے کہا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی
کا کہنا تھا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ اس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت درخواست کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آئے تھے، کیا جج نے بنیادی حق استعمال کرکے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، کیا اس طرح جسٹس عیسیٰ کا عدالت آنا ضابطہ اخلاق کے منافی نہیں۔جس کے جواب میں منیر اے ملک نے کہا
کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ جج اپنی ذات کے لیے آئے یا یا عدلیہ کیلئے آئے تھے، آج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نجانے کس کے خلاف ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کا جواب الجواب پورا ہوگیا۔جسٹس عیسیٰ کے وکیل کے جواب الجواب کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔اس
موقع پر حامد خان نے قرآن پاک کی سورۃ النسا کا بھی حوالہ دیا۔سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے، تاہم اس کے جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن
کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے، اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو قانونی فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں تاہم وزیراعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔کے پی بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کے پی کے کے بیس ہزار وکلا کی نمائندگی کررہا ہوں۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ اس مقدمے میں انتیس درخواستیں
مختلف بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز نے دائر کی ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہاہک یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رشتہ دار نہیں،یہ درخواست گزار عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے،عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کریں۔ افتخارگیلانی نے کہاکہ ملک کی وکلا برادری عدالت عظمی کے سامنے کھڑی ہے،آئین کے تحفظ اور بحالی کے لئے آمروں کے
دور میں جیل جانا پڑا۔ افتخارگیلانی نے کہاکہ یہ برابری کا مقدمہ بھی ہے۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ ہماری بہن اور بیٹی کو عدالت آنا پڑا۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ انہیں بلایا نہیں گیا وہ خود اپنا موقف دینے آئیں،بار کونسل یا بار ایسو سی ایشن کا کوئی زاتی مفاد نہیں۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ وکلا تنظیموں کا مفاد آئین کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی ہے،یہ بھول جائیں کہ یہ کسی جج کا مقدمہ ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ریفرنس مکمل
خارج کردیں۔ انہوںنے کہاکہ ھمارے لئے یہ بڑا اھم معاملہ ہے،بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے ہم اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں،ھم آئین اور قانون کے پابند ہیں،انشاء اللہ اپنا کام آئین اور قانون کے مطابق کرینگے،ہمیں مشاورت کے لئے وقت چاہیئے ھوگا۔بعد ازاں بار کونسل کے وکلا کے بھی دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت میں کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز
عیسیٰ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا بعد ازاں تقریباً چار بجے فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کو منظور کرلیا۔عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیے گئے شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیے۔سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سنایا، جس میں تین ججز نے اضافی نوٹ
لکھا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا، اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10 ججز متفقہ کاہے۔سات ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو بھیجنے کا حکم دیا ،بینچ میں شامل تین ارکان جسٹس مقبول باقر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے
کے حکم سے اختلاف کیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی۔عدالت کی جانب سے کہاگیاکہ یہ فیڈرل بورڈ آف (ایف بی آر) 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس پر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔عدالت فیصلے میں
کہاگیاکہ ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے، نجی ٹی وی کے مطابق ایف بی آر حکام معاملے پر التوا بھی نہ دیں، اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی۔سپریم کور ٹ آف پاکستان نے کہاکہ عدالتی فیصلے سے کسی فریق کا اپیل کا حق متاثر نہیں ہوگا، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ لکھا۔ اضافی نوٹ میں کہاکہ کوئی جج قانون سے بالاتر نہیں، ججز کو دیگر شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں، ججز کے حقوق کا تحفظ کرنا عدلیہ کی آزادی کیلئے لازمی ہے۔فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں وکلاء کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران
لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں تاہم انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہی کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر
مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف منحصر اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔جسٹس قاضیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کیلئے تشکیل
کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ درخواست گزار جج اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی تھیں۔ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ چلنے والے اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں جس کے دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں پیش ہوئے۔گزشتہ روز حکومتی وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس پر عدالت نے ان سے تحریری معروضات جمع کروانے کا کہا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔