اسلام آباد( آن لائن) وفاقی حکومت سے بی این پی کی علیحدگی کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے لئے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ(ق) جو کہ پہلے ہی تحفظات اور خدشات سے بھری پڑی ہے اس موقع پر اگر حکومت سے الگ ہو گئی تو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اختتام کو پہنچ سکتی ہے ۔
ایم کیو ایم نے بھی تیاریاں شروع کر دیں ۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سے صرف اتحادی جماعتیں ہی ناراض نہیں ہیں بلکہ وفاق میں حکمران پارٹی کے اپنے ایک درجن اراکین اسمبلی اور پنجاب میں 20 اراکین اسمبلی بغاوت کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی نے بھی بلوچستان حکومت سے علیحدگی کے لئے سرجوڑ لئے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم ترین راہنما جہانگیر ترین ناراض ہو کر لندن روانگی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مسلسل گرداب میں دھنستی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔ بی این پی مینگل گروپ نے گزشتہ روز دوٹوک علیحدگی کا اعلان کر کے حکومتی کشتی میں پہلا چھید کر دیا ہے جبکہ مسلم لیگ(ق) اور پی ٹی آئی کے درمیان پہلے ہی بہت دوریاں ہیں اور مسلم لیگ( ق) اس حوالے سے وزیر اعظم سے مل کر بھی اور ٹی وی چینلز پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اس لئے مقتدر قوت کا اشارہ ملتے ہی مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ(ن) سارے غم بھلا کر ایک ہو جائیں گے ۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ طاقت کے مرکز کی طرف سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ٹیلی فونک رابطے اور کئی غیر ملکی سفیروں کے اپوزیشن لیڈر سے رابطے تبدیلی کی ہوائوں کا پتہ دے رہے ہیں ۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد اور تعاون کے باوجود وزیر اعظم عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے بلکہ عوام کو پے درپے مہنگائی ، بے روزگاری اور دبائوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت کسی ایک مسئلے سے نمٹنے میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نیا پاکستان بنانے کیلئے اپنے 23 سالہ وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل کرنے میں ناکام رہے ۔ معیشت کی بہتری کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے وزیر اعظم کی بھرپور معاونت کی لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم نے معیشت کو سنبھال سکے اور نہ ہی عوام کی زندگی میں بہتری لا سکے ۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ، بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت اب صرف ” ایمپائر ” کی خاموشی تک قائم ہیں ٠۔ جیسے ہی ”ایمپائر ” نے اتحادی پارٹیوں کو آزادی کا اشارہ کر دیا تو تبدیلی آ جائے گی ۔ البتہ قسمت کے دھنی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اتحادی پارٹیوں سے مزید کچھ وقت لے سکتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ مہلت لے بھی لیں تو قوم کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن سے جہانگیر ترین اور میاں نواز شریف کی ملاقات کی خبر بھی آ سکتی ہے جو کہ پی ٹی آئی کے لئے ایک خوفناک پیغام ہو گا ۔