کوئٹہ ( آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے کہاہے کہ موجودہ حکومت میں بلوچستان سے 1500 کے قریب جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں،6نکاتی معاہدے پرعملدرآمد ممکن نہیں تو یہ ناممکن بھی نہیں ہے ،حکومت مطالبات پرعملدرآمدکرائے تو بی این پی کیا بلوچستان کی تمام اقوام تحریک انصاف میں شامل ہوجائیںگی ،
اگرلاپتہ افراد کی واپسی میں اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے توکیاقانون سازی، ترقیاتی منصوبوں، روڈ بنانے میں بھی اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے، حکومت اسٹیبلشمنٹ کو ٹیلہ بناکر اس کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔غیرملکی نشریاتی ادارے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ اس عرصے میں 418 افراد بازیاب ہوئے ہیں اور یہ وہ ہیں جنھوں نے ان سے رابطہ کیا یا ان کے ذریعے رہا ہوئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں بلوچستان سے 1500 کے قریب جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں جبکہ اس عرصے میں 418 افراد بازیاب ہوئے ہیں اور یہ وہ ہیں جنھوں نے ان سے رابطہ کیا یا ان کے ذریعے رہا ہوئے ہیں۔ہم نے قومی اسمبلی میں لاپتہ 5128 افراد کی فہرست پیش کی تھی، اسی دوران مئی تک 500 مزید افراد کی گمشدگی کی ایک اور فہرست دی جبکہ 900 سے 1000 افراد کی ایک اور فہرست ہے جو ابھی تیار ہو رہی ہے یہ تمام لوگ تحریک انصاف کی حکومت میں لاپتہ ہوئے ہیں اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے مطالبات اور بنیادی مطالبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ڈیموگرافی میں تبدیلی کے خلاف قانون سازی کے لیے مسودہ ابھی تک قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں پڑا ہوا، افغان مہاجرین کی واپسی کا اعلان ہوا اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، صحت، تعلیم، معدنی وسائل اور انفراسٹریکچر،گودار کے ماہی گیروں کے مسائل پر بھی صفر پیش رفت ہوئی۔
انھوں نے بتایا کہ پہلے جہانگیر ترین کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی اس کے بعد نعیم الحق کو سربراہ بنا دیا گیا دوبارہ جہانگیر ترین کو سربراہ بنایا گیا، پھر ان کو ہٹاکر اب پرویز خٹک کو کمیٹی میں رکھا گیا اس صورتحال میں سلسلہ بے ربط ہوجاتا ہے کمیٹی کو مسائل اور صورتحال کو دوبارہ سے سمجھانا پڑتا ہے اس طرح پورا عرصہ صرف ان کمیٹیوں میں گزر گیا ہے، پیش رفت کوئی نہیں ہوئی ہے۔سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہماری سینٹرل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومتی اتحاد کو خدا حافظ کہہ کر نکل آئیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات پر عملدرآمد ممکن نہیں لگتا لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ حکومت اب پہلے مطالبات پر عملدرآمد کرے اس کے بعد بی این پی کیا، بلوچستان کی تمام اقوام تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے معاہدے حکومت کے ذمہ داران سے ہوئے، ہوسکتا ہے کہ مسنگ پرسنز کی واپسی میں سٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہو، لیکن قانون سازی، ترقیاتی منصوبوں، روڈ بنانے میں بھی کیا سٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے، وہ سٹیبلشمنٹ کو ٹیلہ بناکر اس کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔’
بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ عوام نے انھیں اسی منشور کے لیے ووٹ دیا تھا تاکہ ان مسائل کو اجاگر کریں اور حل کرنے کیلیے جدوجہد کریں ہم نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ بھی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا ہے۔بلوچستان میں زیر بحث ڈیتھ سکواڈ کے بارے میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان ڈیتھ سکواڈز کو ختم نہیں کیاگیا تھا جن جن اضلاع میں یہ موجود تھے ان کے ایک رکن کی کبھی لاش نہیں ملی اور نہ لاپتہ کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘انھیں گھروں پر بٹھایا گیا یہ سمجھیں کہ شارٹ بریک دیا گیا تاکہ بلوچستان میں جب بھی سیاسی شعور آئے اس کو ختم کرنے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں لیکن اس سے نفرتیں بڑھیں گی کیونکہ نظریے اور سوچ کو گولی سے ختم نہیں کرسکتے جہاں لہو گرے گا وہ تناور درخت بنے گا۔’وفاق میں تحریک انصاف کی حمایت اور صوبے میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جب حکومت سازی ہوئی تو تحریک انصاف نے ان سے پوچھا ہی نہیں وہ بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ حکومت سازی کرتے اور دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی عرف ‘باپ’ ان کی ضرورت تھی اور اس کو بنایا ہی حکومت کے لیے گیا تھا انھوں نے وفاقی حکومت کی حمایت کی تھی اس کا حصہ نہیں تھے۔