لاہور(این این آئی)وزیر اعظم عمرا ن خان نے واضح کہا ہے کہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا کیلئے اب ہمیں سختی کرنا پڑے گی،مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا جائے گا،سلیکٹو لاک ڈاؤن کریں گے،ہاٹ سپاٹ کو ٹریس کریں گے اور ان علاقوں کو بند کریں گے،باقی صوبوں کے بھی دورے شروع کر رہاہوں اور وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر مانیٹرنگ کروں گا،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام نے احتیاط نہیں برتی
اور آنے والے دنوں میں مسئلے مسائل بڑھنے والے ہیں،ٹائیگر فورس کا بہت اہم کردار ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی ذمہ داری بڑھنے والی ہے، کورونا کے لئے وسائل مختص کرنے کی وجہ سے ہمیں بجٹ بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، انتظامیہ اور پولیس اتنا بڑا بوجھ نہیں لے سکتی اس لئے ہمیں اور رضا کار لینا پڑیں گے اور ٹائیگرز فورس کی تعداد کو بڑھانا پڑے گا،وہ آگاہ کریں گے جس کے بعد انتظامیہ ایکشن لے گی۔ لاہور میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے لاہور کا دورہ کیا، یہ دیکھا کہ حکومت کیا کررہی ہے اور ہماری عوام سے جو توقعات تھیں وہ کتنی پوری ہوئی ہیں۔ایک تاثر یہ تھا کہ لاہور میں وباء تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے شاید مکمل لاک ڈاؤن کر رہے ہیں لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ مکمل لاک ڈاؤن کا مطلب ہے کہ پوری معیشت کو بند کر دیا جائے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے،سب کو شروع دن سے میری رائے کا علم ہے کہ اگر ہم سنگا پور، نیوزی اور تائیوان کی طرح لاکھوں کی آبادی والے چھوٹے ممالک ہوتے،ان کی طرح ہمارے پاس وسائل ہوتے تو کوئی زیادہ مسئلہ نہیں تھا، وہاں پر گھر بھی بڑے بڑے ہیں، وہاں سماجی فاصلوں پر عملدرآمد میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پھیلاؤ رک جاتا ہے اور ہم وائرس کو آہستہ آہستہ ختم کرلیتے۔
میں پہلے دن سے یہ کہہ رہا تھاکہ پاکستان 22کروڑ آبادی والا ملک ہے اور یہاں پر 25فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے،بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی یہی حالات ہیں۔اگر ہمارے جیسے ممالک میں معاشی سر گرمیاں رک جاتی ہیں تو ہمارے جیسے ممالک میں سارا بوجھ نچلے طبقے پر پڑتا ہے، لوگ بیروزگار ہو جاتے ہیں، اگر ہر رو زیا ہر ہفتے آمدن ان کے گھر نہ آئے تو یہ لوگ اپنے اہل خانہ کا پیٹ نہیں پال سکتے،
ایسے ممالک میں سمارٹ لاک ڈاؤن ہوتا ہے۔ہم نے سوچ سمجھ کر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا کہ کسی طرح معیشت کے پہیے بھی چلتے رہیں،لوگ بیرو زگار نہ ہوں اور وباء کو بھی کنٹرول کیا جائے، اس کو ساتھ ساتھ چلانا مشکل کام تھا۔ یہ باتیں ہوئیں کہ پہلے ہی لاک ڈاؤ ن کر دینا چاہیے تھا یا زیادہ سخت لاک ڈاؤن کرنا چاہیے تھا،نیو یارک کا میئر کہہ رہا ہے جودنیا کا سب سے امیر شہر ہے جہاں کے ہیلتھ کا بجٹ ہمارے بائیس کروڑ عوام کے بجٹ سے دو گنا
ہے وہ بینک کرپٹ ہو چکا ہے وہاں دیوالیہ نکل گیا ہے، یہ سوچیں ہمارے ملک میں کیا اثرات ہوں گے، ہم سے پوچھیں ہمیں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ بات کرتے ہیں کہ وہاں زیادہ مشکل حالات ہیں وہاں زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں تین مہینے میں جتنی اموات ہوئی ہیں وہاں ایک ایک دن میں اتنی اموات ہوئی ہیں، ان کے ہسپتالوں پر زیادہ دباؤ تھا۔ لاک ڈاؤن سے معیشت تباہ ہوتی ہے،جب آپ ایک ملک کو بند کر دیتے ہیں اس کا اموات
سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جتنی دیر ملک بند کرتے ہیں معیشت تباہ ہوتی ہے۔ ہم نے 13مارچ کو لاک ڈاؤن کیا تھا اور اتنا ہی لاک ڈاؤن نیو یارک کا ہے اگر اس کا دیوالیہ نکل گیا تو ہمارے اوپر کتنے مشکل حالات آئے ہیں، ہماری ساری آمدنی نیچے چلی گئی، ہمارے پاس لوگوں پر خرچ کرنے کے لئے کم ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں جب بھی آپ کے سامنے آیا ہوں کہ یہی کہا ہے کہ احتیاط کریں اگر ہم نے احتیاط نہ ہمیں آئندہ مشکلات کا
سامنا کرنا پڑے گا۔میں بار بار ایس او پیز پر عملدرآمد کا کہتا رہا ہوں کیونکہ اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو یہ وباء تیزی سے پھیلے گی، اگر ہم لوگوں کو بند کر دیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم غریبوں کو کچل دیں گے، پھر ملک کو کیسے چلائیں گے، عوام ذمہ داری لیں، جو بھی سر گرمیاں کریں ایس او پیز کے مطابق کریں، اگر آپ ایس او پیز پر نہیں چلیں گے تو آخر میں ملک کو بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا،جب ہم موقع دے رہے ہیں کہ اپنی سر گرمیاں
شروع کریں لیکن ساتھ ساتھ احتیاط کریں اس سے ہسپتالوں پر کم دباؤ ہوگا۔ جب احتیاط نہیں کریں گے تو ہسپتالوں پر دباؤ پڑے گا بلکہ پڑ چکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے،فیصلہ کیا ہے پہلے ہم عوام پر چھوڑ رہے تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام نے احتیاط نہیں کی، پاکستانی سمجھ رہے تھے کہ یہ بیماری نہیں، یہ پاکستانیوں کو نہیں لگے گی۔اگر آپ احتیاط نہیں کریں گے تو اپنے بزرگوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔وزیر اعظم عمران خان
نے کہا کہ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں سختی کرنا پڑے گی، ہم لاک ڈاؤن نہیں کریں گے لیکن ہاٹ سپاٹ کو ٹریس کریں گے اور ان علاقوں کو بند کریں گے، انتظامیہ اور پولیس اتنا بڑا بوجھ نہیں لے سکتی اس لئے ہمیں اور رضا کار لینا پڑیں گے اور ٹائیگرز فورس کی تعداد کو بڑھانا پڑے گا۔وہ ہمیں آگاہ کریں گے جس کے بعد انتظامیہ ایکشن لے گی، ہم نے پھیلاؤ روکناہے اور ہم احتیاط کر کے ابھی بھی پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے
تو ہم لئے مشکلیں پیدا کر رہے ہیں۔ اب ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے انتظامیہ اوررضا کار پورا زور لگائیں گے،ماسک سب سے زیادہ ضروری ہے، اب کسی کو بھی بغیر ماسک کے عوامی مقامات پر نہیں جانے دیں گے۔یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہم اس جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں وہاں کیا مشکل صورتحال ہے۔جہاں وباء پھیلے گی اگر ہم اس علاقے کو کریں گے وہاں فیکٹریاں بھی بند ہوں گی جس سے لوگوں کو مشکل پڑے گی،فیکٹری کام نہیں کرے گی وہاں مزدور بیروزگار ہو جائیں گے۔
عوام اپنے لئے اپنے ملک کے لئے اورغریب لوگوں کیلئے احتیاط کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں فیصد لوگ مشکل میں ہیں، وہاں بھوک پھیل گئی ہے اوربھارت کے لئے چیلنج بن چکاہے۔ ہم مشکل راستے سے یہاں تک پہنچے ہیں، ہم نے پورا لاک ڈاؤن نہیں کیا، اب ہمیں مختلف اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ٹائیگر فورس کا بہت بڑا کردار ہے اور آنے والے دنوں میں ان کی ذمہ داری بڑھنے والی ہے کیونکہ بد قسمتی سے بے احتیاطی کی گئی جس سے یہ وباء بڑھی،
اگلے ماہ جولائی میں زیادہ مسئلے مسائل آئیں گے اس لئے ان کو پورا استعمال کریں گے، یہ ہر علاقے کی رپورٹس دیں گے،موبائل فون سے ڈیٹا آتا جائے گا کہ کس مقام اور کس شعبے میں کتنا حالات بگڑتے ہیں، عوام پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ جتنی احتیاط کریں گے حالات اتنے قابو میں رہیں گے،جتنی بے احتیاطی ہو گی اتنے حالات بے قابو ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی اس وباء میں اضافہ ہوا، ہم نے کہا تھا کہ ہم مجبوری میں ہٹا رہے ہیں،
لوگوں کو ایسا لگا کہ شاید بیماری ختم ہو گئی، بے احتیاطی کی وجہ سے زیادہ کیسز ہو چکے ہیں۔ اب بہت ضروری ہے ہم سب احتیاط کریں۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ باقی صوبوں کے دورے کروں گا وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر خود مانیٹر کروں، وہاں سے باقاعدہ دیکھیں گے صوبے میں کتنی کمپلائنس ہو رہی ہے،انڈسٹری، کھانے پینے کی جگہوں کی کیا صورتحال ہے۔ صوبائی حکومتوں کو آگاہ کریں گے ان کے ساتھ کوآپریٹ کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ثابت ہو گیا ہے کہ اگر ماسک کا استعمال
کیا جائے تو اس کے پھیلاؤ کی رفتار پچاس فیصد کم ہو سکتی ہے۔ اب سب نے ماسک پہننا ہے، سب سے زیادہ خطرہ بزرگوں کو ہے اور ان لوگوں کو ہے جو ذیابطیس، بلڈ پریشر کے مریض ہیں،لوگ اس لئے لا پرواہی کر رہے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں ہورہا۔جب مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو ہمارے ہیلتھ ورکرز پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہاکہ ہمارے پاس کورونا کے مریضوں کے لئے 10ہزار بیڈز تیار ہیں، جو مریض داخل ہیں ان میں سے 215خطرناک حالت میں ہیں،
540وینٹی لیٹرز کورونا کے مریضوں کے لئے مختص ہیں، اس وقت صوبے میں 193وینٹی لیٹرز پر ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں ابھی 30سے40فیصد مریضوں کی استعداد ہے۔ اگر ہم پرہیز کریں اوراحتیاط کریں تو وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں، اب تک جو بیڈز ہیں وہ اگلے ہفتے دس روز کے لئے کافی ہیں۔ہم این ڈی ایم اے کے مشکور ہیں جنہوں نے 1ہزار ہائی ڈیپنڈنسی بیڈز دینے کی یقین دہانی کرائی ہے جو اس ماہ کے آخر تک مل جائیں گے جبکہ جولائی میں مزید ایک ہزار بیڈز ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈریپ نے ایکٹمیرا انجیکشن امریکہ سے منگوانے کی اجازت دیدی ہے، میں عوام کو تسلی دینا چاہتی ہوں یہ ٹرائل ہو رہے ہیں، ٹرائل انجکشن ہیں جب تک ہم ایک ہزار مریضوں کو علاج نہیں کرینگے اس کے مثبت نتیجے کو نہیں پرکھ سکتے، یہ ہر بند ے کو نہیں لگنا، اس کے لئے پروٹوکول بن چکا ہے اور ہسپتالوں کو دیدیا گیا ہے،کئی لوگوں کو یہ نقصان بھی دے سکتا ہے جنہیں انفیکشن بہت زیادہ ہے ان کے لئے نقصان ہو سکتا ہے،بغیر نسخے کے اسے استعمال نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ
ہمارے پاس کچھ کیسز آئے ہیں جس میں انجیکشن بلیک میں میں فروخت کئے گئے، ہم ایسے لوگوں کے خلاف سخت اقدام اٹھائیں گے،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں اور آپ لوگ پیسے کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے آکسیجن کی بلا تعطل سپلائی مہیا کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت نے کہا کہ جن بھی قوموں نے اس وباء پر قابو پایا ہے وہاں رضا کاروں کے ذریعے نتائج حاصل ہوئے ہیں، اس وقت رضا کاروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے،
ہم ٹائیگر ز فورس ایک نیا کام سونپنے جارہے ہیں جو ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والے مقامات کی نشاندہی کریں گے، اس کیلئے ایک ایپ بنارہے ہیں جس میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کی تصاویر بھجوائی جا سکیں گے۔ہم نے اس وباء کے ساتھ رہنا ہے مگر ہم نے زندہ رہنا ہے، اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ معاشرہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرے اور ایس او پیز پر عملدرآمد کرے ، آئندہ رضا کاروں کا کلیدی کردار ہوگا۔ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ہم نے حالات کا جائزہ لیا ہے کہ کچھ اضافی تدابیر کرنے کی ضرورت ہے،ان اضافی تدابیر میں کمپلائنس اہم جزو ہے وہ جگہیں، وہ کاروبار، وہ رہائشی علاقے جہاں اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہو رہا ہے تعین کیا جارہا ہے۔
اس کے لئے ماڈرن ٹیکنالوجی سوفٹ تیار کیا گیاہے اس کی مدد سے تکنیکی اعتبار سے ہم وہاں تک پہنچیں گے۔ اس سے انتظامیہ کیلئے آسانی ہو گی کہ وہ وہاں پر زیادہ بندشیں لگائے۔ہم اس کے ذریعے بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے، ہماری کوشش ہے کہ بیشتر کاروبار زندگی چلتا رہے۔عثمان ڈار نے کہا کہ 10لاکھ میں سے سوا 2لاکھ ٹائیگر فورس اپنی ذمہ داریاں پوری کر چکی ہے، ٹائیگر فورس کے ذریعے مساجد میں کامیاب تجربات کر چکے ہیں،پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس نے مساجد بند نہیں کی اور مساجد سے کورونا نہیں پھیلا۔ ٹائیگرز فورس نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایس او پیز پر عملدرآمد کرایا، نو ماسک نو سروس پر کام شروع کردیا ہے، فیصلہ سازی کو تیز رفتاری کرنے کیلئے ٹیکنالوجی لا رہے ہیں، جو تصویر لے کر انتظامیہ کوبھجوائیں گے اور اس پر ایکشن لیا جائے گا۔