اسلام آباد(اے این این) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے)نے جج ارشد ملک ویڈو اسکینڈل میں ملوث 2 افراد کو ‘انتہائی مطلوب دہشت گرد’ قرار دے دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے مرتب کردہ ہائی پروفائل دہشت گردوں کی فہرست میں جج ویڈیو اسکینڈل میں نامزد 2 ملزمان راولپنڈی کے رہائشی ناصر محمود اور لاہور کے رہائشی میاں سلیم رضا کا نام شامل کیا گیا ہے۔
بلیک میلنگ اور مجرمانہ فعل کے الزام کا سامنا کرنے والے دونوں ملزمان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ(ن) سے بتایا گیا۔ خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران سامنے لائی گئی ایک ویڈیو میں یہ دیکھا گیا تھا کہ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قید کی سزا دبا میں آکر دی تھی۔ایف آئی اے کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کا نام بھی شامل ہے جو اس وقت برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے رہ رہے ہیں، ان پر ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اس کیس میں دیگر 3 ملزمان انور علی، افتخار حسین اور کاشف خان کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ڈاکٹر عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں کے خلاف پاکستان میں مقدمہ دسمبر 2015 میں اس وقت درج کیا گیا تھا جب چوہدری نثار علی خان ملک کے وزیر داخلہ تھے۔
مذکورہ فہرست میں لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کے نام شامل ہیں جو مبہنہ طور پر ممبئی دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔فہرست میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق ملتان سے تعلق رکھنے والے امجد خان پر ممبئی حملوں کے دوران استعمال ہونے والی کشتی الفوز خریدنے کا الزام ہے، مزید یہ انہوں نے کراچی میں اے آر زیڈ واٹر اسپورٹس سے یاماہا موٹربوٹ انجن، لائف جیکٹس، انفلیٹ ایبل بوٹس، وغیرہ بھی خریدی تھیں۔
ایف آئی اے کہتی ہے کہ یہ چیزیں ممبئی حملوں میں استعمال ہوئیں تھیں اور انہیں بھارتی حکام کی جانب سے برآمد کیا گیا تھا۔اس فہرست پر ایک اور لشکر طیبہ کا کارکن فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا افتخار علی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کیس میں اس نے دہشت گردوں کے رابطوں کے لیے وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول (وی او آئی پی) کنیکشن حاصل کرنے کے لیے خود کو ملک تہمور ظاہر کرکے اسلام آباد میں ایک منی چینجر کے پاس رقم جمع کروائی تھی۔
مزید برآں اس میں کہا گیا ہے کہ تربت سے محمد خان نے دہشت گردوں کو الحسین کشتی فراہم کی تھی۔اس فہرست میں لشکر طیبہ کے کئی دیگر افراد کے نام بھی شامل ہیں جو الحسین اور الفوز کشتیوں کے عملے کے لوگوں اور دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کرتے تھے۔علاوہ ازیں اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پولیس کی جانب سے نامزد ایک اور شخص ملتان سے محمد عمران ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا البدر اور حرکت المجاہدین سے تعلق ہے۔
پولیس کے مطابق اس شخص نے میریٹ اسلام آباد ہوٹل کا دہشت گرد حملے لیے ہدف کے طور پر انتخاب کیا تھا جبکہ وہ افغانستان میں 9/11 کے بعد ہونے والی جنگ میں بھی حصہ لے چکا تھا۔مذکورہ فہرست میں مولانا اعظم طارق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر امامیہ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن(آئی ایس او)کے کارکنان (ٹوبہ ٹیک سنگھ) سے امجد شاہ، (سرگودھا) سے رضوان علی، (جہلم) سے قلب عباس شاہ، (سرگودھا) سے سید کاشف علی رضا اور (واہ کینٹ) سے اسد عباس کے نام بھی شامل ہیں،
ان ملزمان میں سے 3 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران میں جبکہ ایک برطانیہ میں ہے۔اس کے علاوہ پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی سفارشات پر سپاہ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) کے کارکن قاری احسان الحق کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن پر سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف پر خود کش حملے اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر قاتلانہ حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام ہے جبکہ ان کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔
مذکورہ فہرست میں تحریک طالبان پاکستان کے بیت اللہ محسود گروپ سے تعلق رکھنے والے واہ کینٹ سے محمد اعجاز کا نام بھی شامل ہے، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف پر خود کش حملے کے لیے 4 گاڑیاں تیار کیں۔دریں اثنا اس فہرست میں متعدد ایسے افراد کے نام بھی شامل ہیں جن پر سیاست دانوں، فوجی اور پولیس اہلکاروں کے اغوا اور قتل سمیت دیگر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔