ریٹائرمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 2 تجربہ کار افسران نےایسا طریقہ کاربتا دیا کہ جان کر سرکاری ملازمین بھی دنگ رہ جائینگے

16  مئی‬‮  2020

اسلام آباد (عمر چیمہ) روزنامہ جنگ میں صحافی عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق2019ء میں پنجاب ریونیو اتھارٹی کے چیئرمین جاوید احمد کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب تھے تاہم دیگر سرکاری ملازمین کی طرح وہ بھی ریٹائر ہونا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے پاس ایک منصوبہ تھا جس پر عملدرآمد کیلئے انہوں نے اپنے اسٹاف کو چند تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کی۔ ان میں سے ایک تجویز ٹیکس پالیسی اور ایڈمنسٹریشن کے مشیر کی اسامی پیدا کرنا تھی۔

اس اسامی کیلئے اہلیت کا معیار ہی کچھ ایسا بنایا گیا کہ وہ اس عہدے کے اہل ثابت ہوتے۔ اس میں کسی بھی شعبے میں ماسٹرز ڈگری کا ہونا (جو ان کے پاس تھی)، عمر کا 55؍ سے 62؍ برس کا ہونا (وہ 62؍ سے کم عمر کے تھے) اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں کم از کم 20؍ سال کا تجربہ ہونا اور ساتھ میں سروس میٹرز میں سیلز ٹیکس کے امور کا پانچ سال کا تجربہ ہونا (جو ان کے پاس تھا) شامل تھا۔ ایڈوائزر (مشیر) کا یہ عہدہ اُن دو آپشنز میں سے ایک تھا جو انہوں نے خود کو ملازمت کا ممکنہ متلاشی سمجھ کر تیار کیے تھے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ ٹیکس اکنامسٹ کا عہدہ تخلیق کرنا تھا۔ اگرچہ یہ عہدہ پہلے سے موجود تھا لیکن وہ اس کیلئے اہل نہیں تھے کیونکہ اس کیلئے اہلیت کا معیار مختلف تھا۔ اس عہدے کیلئے ضروری تھا کہ متعلقہ شعبے میں ماسٹرز ڈگری ہو یا پی ایچ ڈی ہو۔ جاوید کے پاس دونوں نہیں تھیں۔ عمر کی حد بھی 25؍ سے 55؍ سال کے درمیان درکار تھی لیکن جاوید 60؍ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ لہٰذا تبدیلی اب ممکن نہیں تھی۔ اس لئے دوسری تجویز رکھی گئی کہ اس اسامی پر اہلیت کے معیار میں تبدیلی کی جائے۔اس طرح مجوزہ نظرثانی میں اس اسامی کیلئے متعلقہ شعبے میں ڈگری کی شرط ختم کر دی گئی، عمر کی حد بھی تبدیل کی گئی۔ اب معاملہ یہ طے پایا کہ کوئی بھی ایسا شخص اس عہدے کیلئے درخواست دے سکتا ہے جو 55؍ سے 62؍ سال کے درمیان ہو اور اس کے پاس کسی بھی شعبے میں ماسٹرز ڈگری ہو۔

گزشتہ سال 17؍ ستمبر کو جاوید نے پی آر اے کی اعلیٰ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں ایڈوائزری عہدے کی تخلیق اور ٹیکس اکنامسٹ کے عہدے کیلئے اہلیت کے معیار کی تبدیلی کی ’’متفقہ‘‘ منظوری دی گئی۔ جاوید احمد اکتوبر 2019ء میں ریٹائر ہوئے اور دو ماہ بعد پی آر اے نے ٹیکس اکنامسٹ کے عہدے کا اشتہار جاری کیا۔ 6؍ امیدواروں نے اس عہدے کیلئے درخواست دی لیکن کامیاب صرف جاوید احمد ہوئے۔ بظاہر وہ ٹیکس اکنامسٹ ہیں ( لیکن ان کے پاس متعلقہ اہلیت نہیں)۔

کہا جاتا ہے کہ وہ بربنائے عہدہ چیئرمین ہیں اور تمام فیصلے کرتے ہیں۔ جو سہولتیں انہیں بحیثیت چیئرمین پہلے ملتی تھیں اب بھی وہی مل رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک معاملہ ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کا بھی ہے جو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سیکریٹری تھے۔ انہوں نے بھی اپنا مستقبل بچانے کیلئے قواعد و ضوابط میں ہیرا پھیری کی۔ انہوں نے 2015ء سے لیکر اب تک کئی مرتبہ قائم مقام کے عہدے پر کام کیا ہے۔ 2012ء میں قائم ہونے والا ادارہ پنجاب ریونیو اتھارٹی (پی آر اے) ان بدقسمت اداروں میں شامل ہے جنہیں طویل عرصہ تک ایڈہاک قیادت کے ذریعے چلایا جاتا رہا ہے۔ جاوید بھی قائم مقام چیئرمین تھے۔ راحیل نے ان سے پہلے قائم مقام چیئرمین کا عہدہ سنبھال رکھا تھا۔ ان کے بعد زین العابدین کا نمبر آیا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد راحیل بھی پی آر اے میں واپس قائم مقام چیئرمین بن کر آئے اور اسی وقت وہ وزیراعلیٰ کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کر رہے تھے۔ راحیل نے جو کچھ بھی کیا وہ جاوید احمد کے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بھی بدتر تھا۔ جاوید احمد نے ضابطوں میں ہیرا پھیری کی، اگرچہ یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت تھی کہ وہ پی آر اے میں تبدیلیاں کریں لیکن راحیل نے تو وہ قواعد ہی تبدیل کر ڈالے جن میں تبدیلی یا ترمیم صوبائی کابینہ کی سطح کا کام تھا۔ چیئرمین کے اختیارات اور اہلیت کا تعین کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے؛ پی آر اے ریگولیشنز میں تبدیلی کرکے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

جیسے ہی راحیل ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچے، انہوں نے اجلاس طلب کرکے تجاویز پیش کیں کہ پی آر اے کو نجی شعبے سے اپنے چیئرمین کا اختیار حاصل ہو جائے اور اہل امیدوار کی عمر 55؍ سے 62؍ سال کے درمیان ہو۔ تجویز کو وزارت قانون کی توثیق سے مشروط کیا گیا۔ تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ اجلاس کے نکات میں توثیق کی بات شامل نہیں کی گئی اور اس طرح تبدیل شدہ اہلیت کا معیار راحیل کی ریٹائرمنٹ کے 9؍ دن بعد گزیٹ کی صورت میں منظور ہوگیا۔ وہ اب بھی پی آر اے میں ہیں لیکن ادارے کو خدشہ ہے کہ چیئرمین کے عہدے کی اہلیت کا معیار تبدیل کرنے کیلئے اس طرح اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ کہیں کھل کر سامنے نہ آجائے۔

موجودہ قائم مقام چیئرمین زین العابدین ساہی نے رابطہ کرنے پر دونوں کیسز کی تصدیق کی۔ جاوید احمد کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ وہ اہل شخص ہیں اور عہدے پر ٹھیک ہیں تاہم زین العابدین کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ جاوید احمد کو عہدے پر رکھنے کیلئے اہلیت کا معیار کیسے تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ پی آر اے میں جاوید احمد ہی فیصلے کرتے ہیں۔ راحیل کے معاملے میں زین العابدین نے تفصیلات میں جائے بغیر کہا کہ پراسیس میں کچھ چیزیں رہ گئیں اور پی آر اے انہیں درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ راحیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ دستیاب نہیں تھے۔تاہم ان کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ مذکورہ تبدیلی ان کے ذاتی مفاد کیلئے نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ باصلاحیت افراد آئیں اور پی آر اے میں خدمات انجام دے سکیں۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…