اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وہ لوگ بلخ کے رہنے والے تھے‘ گھوڑے پالتے تھے اور چراگاہوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے تھے‘ سردار کا نام ارطغرل تھا‘ قبیلہ بہار کے موسم میں شام کی طرف سفر کر رہا تھا‘۔ ۔۔سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم’’یہ سب جانتے ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ انگورہ ( انقرا) کے قریب خوف ناک جنگ ہو رہی تھی‘ سردار ارطغرل پہاڑ سے تھوڑی دیر جنگ دیکھتا رہا
اور پھر نہ جانے اس کے دل میں کیا آیا‘ اس نے مظلوم لشکر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا‘ساتھیوں کو اشارہ کیا اور ارطغرل کے گھوڑے دھول اڑاتے ہوئے میدان میں کود پڑے اور مظلوم کی طرف سے لڑنا شروع کر دیا۔وہ صرف دو سو لوگ تھے‘ جنگوں میں مشکل وقت میں دو سو لوگ بھی کافی ہوتے ہیں‘ ان کی شمولیت سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا‘ ہارنےوالا لشکراس کمک سے شیر ہو گیا‘ جنگ کا نقشہ بدل گیا‘ ارطغرل کو رات کے وقت معلوم ہوا یہ تاتاریوں اور سلجوقوں کی جنگ تھی اور اس نے سلجوق سلطان علاؤالدین کی مدد کی‘ سلطان خوش ہو گیا اور اس نے دریائے سقاریہ کی بائیں جانب کا علاقہ صغوط ارطغرل کو سونپ دیا‘ صغوط شہر آج بھی موجود ہے اور مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہو چکا ہے‘ ارطغرل سمجھ دار اور بہادر انسان تھا‘ اس نے صغوط کے دائیں بائیں موجود علاقے فتح کیے اور اپنی جاگیر وسیع کرلی‘ دوسرا وہ سلطان علاؤالدین کے قریب ہوتے ہوتے اس کا نائب بن گیا‘ قونیہ اس وقت سلجوق سلطنت کا دارالحکومت ہوتا تھا ‘ ارطغرل نے قونیہ میں بھی چھوٹا سا محل بنا لیا‘ ارطغرل 1288ءمیں انتقال کر گیا اور اس کے بیٹے عثمان نے اس کی جگہ لے لی‘ وہ بھی سلطان کا نائب بن گیا‘ سلطان علاؤالدین کے بعد اس کا بیٹا غیاث الدین سلطان بنا‘ وہ تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا جس کے ساتھ ہی سلجوق سلطنت ختم ہو گئی‘ عثمان آزاد ہو گیا‘ اس نے لشکر بنایا اور ترک علاقے فتح کرنا شروع کر دیے‘ اس کا بیٹا آر (اور) خان بہت بہادر اور زیرک تھا‘ وہ والد کے ساتھ ساتھ لڑتا رہاں یہاں تک کہ
دونوں نے برسہ فتح کر لیا‘ یہ فتح سنگ میل ثابت ہوئی اور اس سنگ میل پر بعد ازاں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی‘ وہ سلطنت جسے دنیا خلافت عثمانیہ یا آٹومن ایمپائر کہتی ہے۔برسہ کی فتح تک پہنچتے پہنچتے عثمان غازی بوڑھا ہو چکا تھا‘ وہ شہر کے باہر پہنچا‘ گھوڑے سے اترا اور برگد کے ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھ گیا‘ بیٹا اورخان بھی گھوڑے سے نیچے آیا‘ والد کا ہاتھ تھاما‘
ساتھیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اعلان کیا ”میں عثمان غازی کو سلطان مانتا ہوں اور ہم ان کے نام سے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں“ تمام ساتھیوں نے خوشی سے سلطان عثمان‘ سلطان عثمان کے نعرے لگائے اور یوں عثمانیہ سلطنت کی بنیاد پڑ گئی‘ عثمانیہ 1517ءتک سلطنت اور بادشاہ سلطان رہے۔سلطان سلیم اول آیا تو اس نے 1517ءمیں سلطنت کا نام خلافت اور سلطان کا عہدہ خلیفہ میں تبدیل کر دیا
اور پھر یہ 1922ءتک خلافت رہی‘ سلطان عثمان غازی نے برگد کے جس درخت کے نیچے حلف لیا تھا وہ درخت بھی آج تک موجود ہے اور مجھے وہاں بھی جانے کا اتفاق ہو چکاہے‘ عثمان غازی کا انتقال بھی برسہ میں ہوا تھا‘ وہ اسی شہر میں مدفون ہوئے اور ان کے بعد1453ءتک تمامعثمانی سلطان ان کے اردگرد دفن ہوئے‘ مجھے اس قبرستان میں جانے اور فاتحہ پڑھنے کا موقع بھی ملا۔برسہ 1363ءتک
عثمانی سلطنت کا دارالحکومت رہا‘ عثمانیوں نے 1362ءمیں ایڈرین فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنا لیا اور پھر جب 1453ءمیں قسطنطنیہ (استنبول) فتح ہو ا تو یہ شہر 1922ءتک عثمانی سلطنت کا دارالحکومت رہا‘ مجھے اللہ نے یہ سارے علاقے بھی دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ہم یہاں پر یہ کہانی روکتے ہیں اور امیر تیمور کی طرف آتے ہیں‘ امیر تیمور کا تعلق برلاس قبیلے سے تھا
اور برلاس منگولوں یعنی تاتاریوں کا قبیلہ تھا‘ امیر تیمور کے والد کا نام تراکئی تھا اور یہ قرشی شہر کے قریب کیش گاؤں کا رہنے والا تھا۔تیمور نے بعدازاں کیش کے نزدیک شہر سبز آباد کیا تھا‘ مجھے اللہ نے شہر سبز‘ قرشی اور کیش تینوں دیکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائی‘ تیمور خود کو مغل النسل کہتا تھا‘ یہ پوری زندگی چنگیز خان کو اپنا باپ بھی کہتا رہا اور منگولوں کی طرح کھوپڑیوں کے مینار بھی بناتا رہا‘
اس نے اپنی نسل کو نجیب الطرفین منگول یا مغل بنانے کے لیے چنگیز خان کے خاندان کی ایک خاتون بی بی خانم سے شادی بھی کر لی تھی‘ تاتاری اور ازبک زبان میں داماد کو ”گورگان“ کہتے ہیں چناں چہ امیر تیمور خود کو گورگان یعنی چنگیز خان کا داماد بھی کہتا تھا۔میں امیر تیمور کی بائیو گرافی سترہ مرتبہ پڑھ چکا ہوں اور 13 مرتبہ ازبکستان کی سیر کر چکا ہوں‘ میں امیر تیمور کے پیچھے پیچھے فرغانہ سے
قراقل پاکستان تک گیا اور میں نے کتابیں بھی کھنگال ماریں لیکن تیمور کسی بھی جگہ سے ترک نہیں نکلا‘ یہ برلاس تھا اور برلاس تاتاری‘ منگول یا چنگیزی تھے اور یہ بعد ازاں ازبکستان کی وجہ سے ازبک کہلایا اور ظہیر الدین بابر کے ہندوستان آنے کے بعد یہ لوگ منگول سے مغل بن گئے تاہم یہ حقیقت ہے تیموری نسل کے بے شمار لوگوں نے ترک خواتین سے شادیاں کیں لیکن یہ شادیاں ایرانی‘
افغانی اور عربی خواتین کے ساتھ بھی ہوئیں مگر ہم ان شادیوں کی بنیاد پر تیموری نسل کو ایرانی‘ عربی یا ترک نہیں کہہ سکتے۔امیر تیمور نے ہاں البتہ عثمانی سلطنت کو فتح ضرور کیا تھا‘ امیر تیمور نے چوتھے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کے ساتھ 1402ءمیں انگورہ (انقرا) میں جنگ کی تھی‘ یہ جنگ امیر تیمور جیت گیا اور بایزید یلدرم اور اس کا بیٹا محمد اول گرفتار ہو گیا‘ امیر تیمور نے دونوں کو قتل کرنے کی
بجائے ہمیشہ کے لیے یرغمال بنا لیا‘ یہ دونوں کو ہر وقت اپنے ساتھ بھی رکھتا تھا اور دربار میں بھی عبرت کی نشانی بنا کر مہمانوں کے سامنے پیش کرتا تھا‘ یلدرم یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکا۔وہ گھٹ گھٹ کر مرنے لگا یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آگیا اور اس نے امیر تیمور کا ہاتھ چوم کر دو درخواستیں کیں‘ پہلی آپ میرے انتقال کے بعد میری لاش کو برسہ لے جانے اور آبائی قبرستان میں دفن کرنے کی
اجازت دے دیں اور دوسرا میرے بیٹے محمد کو عثمانی سلطنت واپس دے دیں تاکہ عثمان غازی کا چراغ جلتا رہے‘ تیمور اس دن خوش تھا‘ اس نے دونوں شرطوں پر ہاں کہہ دی‘ یلدرم 1403ءمیں ”اک شہر“ کے قریب انتقال کر گیا‘ تیمور کی اجازت سے اس کی لاش برسہ پہنچائی گئی اور اسے اورخان کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔میں اس کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھ چکا ہوں‘ یلدرم کے بعد تیمور کی اجازت سے محمد اول عثمانی سلطنت کا
سلطان بن گیا چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں امیر تیمور ترک نہیں تھا‘ وہ ترکوں اور عثمانیوں کا دشمن تھا‘ وہ تاریخ کا واحد سپہ سالار یا بادشاہ بھی تھا جس نے عثمانی سلطنت کو فتح بھی کیا تھا اور ترکوں کی کھوپڑیوں کے مینار بھی بنائے تھے‘ ظہیر الدین بابر امیر تیمور کے پوتے کا پوتا تھا اوروہ 1526ءمیں ہندوستان آیا تھا اور اس نے یہاں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے
ہندوستان اپنی پوری تاریخ میں کسی بھی زمانے میں خلافت عثمانیہ کا حصہ نہیں رہا‘ تاریخ میں یہ کارنامہ پہلی بار وزیراعظم عمران خان نے 14 فروری2020ءکو ترک صدر طیب اردگان کی موجودگی میں انجام دیا اور تاریخ اور تاریخ کے طالب علم دونوں کو حیران کر دیا اور میں اس عظیم کارنامے پر اپنے وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔وزیراعظم عمران خان کمال شخصیت ہیں‘ یہ دنیا کی ہر چیز ‘ ہر علم جانتے ہیں‘ یہ اسلام کو بھی سمجھتے ہیں۔