سرینگر(اے این این ) مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کا ایک ماہ مکمل،10ہزار سے زائد گرفتاریاں ،درجنوں شہید،سینکڑوں زخمی،وادی میں شادیاں رک گئیں،30دن میں پہلی شادی،800کے بجائے 60افراد کی شرکت،قابض اہلکاروں کی جانب سے خواتین کی عصمت دری کی اطلاعات،قیدیوں کو عارضی عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے ،سینکڑوں بھارت منتقل ،حراست میں لئے گئے کئی افراد لاپتہ۔
ذرائع نقل و حمل اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے سے کاروبار زندگی مفلوج، دکانیں، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند،میڈیا پر بدستور پابندیاں ۔تفصیلات کے مطابق 5اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں آئین کے آرٹیکل370 اور35اے کے خاتمے سے ایک دن قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا اور وادی کا لاک ڈاؤن کر دیا گیا جسے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے ۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ وادی میں 5 اگست سے بھارتی کریک ڈان جاری ہے۔ ذرائع نقل و حمل اور ہر طرح کے مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔ دکانیں، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں جس کے نتیجے میں کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔اس دوران بھارتی فورسز نے10ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں سے متعدد بھارت منتقل کئے گئے جبکہ کئی افراد کو وادی میں عارضی عقوبت خانوں میں رکھا گیا ہے ۔حراست میں لئے گئے افراد میں حریت قائدین کے علاوہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی مفتی سمیت بھارت نواز سیاستدان بھی شامل ہیں ۔ متعدد زیر حراست افراد کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔صحافیوں کو بھی گھروں اور جیلوں میں نظر بند کیا گیا ہے، انسانی حقوق کے کارکنوں پر جھوٹے الزامات کے تحت قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
او آئی سی کے ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بھارتی ہتھکنڈے کشمیریوں کے بنیادی حقوق متاثر کر رہے ہیں جو انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔تنظیم نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور بدترین حالات کی تصویر دنیا کو دکھانے پر او آئی سی کے ہیومن رائٹس کمیشن کے پروڈیوسرز اور رپورٹرز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔کمیشن نے او آئی سی کی جانب سے مسئلہ کو اٹھانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اور کہا کہ او آئی سی کی تنظیم بھارتی سرکار سے معاملے کو اٹھائے اور جنت نظیر میں جاری کرفیو کو فوری ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ کشمیری شہری آزادانہ زندگی گزار سکیں ۔5 اگست سے ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبار اور فون کی بندش سے مقبوضہ کشمیر کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔ قابض فوج نے کشمیریوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل کردیا ہے۔ وادی میں کھانے پینے کی چیزوں، ادویات اور دیگر ضرورت کی اشیائے کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
جس کے نتیجے میں کشمیری ایک انسانی بحران سے دوچار ہوگئے ہیں۔بھارتی حکومت نے آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں سے آرٹیکل 370 اور 35 اے منسوخ کردیا ہے جب کہ ریاست کو دو حصوں میں بھی تقسیم کردیا گیا ہے۔کرفیو کی وجہ سے جموں و کشمیر کے تاجروں کو مالی طور پر کم از کم 500 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاحتی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے جو کشمیریوں کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
رواں سال جون جولائی میں سوا تین لاکھ سیاحوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا اور اگست میں یہ تعداد صفر ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں کشمیری دو وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے 7 لاکھ بھارتی فوج تعینات تھی اور خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے باعث مزید ایک لاکھ 70 ہزار بھارتی فوج تعینات کی گئی ہے جو کشمیریوں کے احتجاج کو پوری طاقت سے کچلنے میں مصروف ہے۔
آئے روز عالمی میڈیا کے ذریعے کشمیریوں پر بہیمانہ تشدد کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔اس ساری صورتحال سے یہ نظر آرہا ہے کہ بھارتی حکومت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیریوں کو معاشی طور پر ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکے۔مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اس نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا۔
تاہم عالمی برادری محض زبانی کلامی باتوں تک محدود ہے اور کشمیریوں کی مدد کے لیے عملا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔عرب خبر رساں ادارے کے مطابق پوری وادی میں سکیورٹی حصار ہے، با اعتماد عالمی میڈیا بھی اس واقعہ کو بھرپور طریقے سے اٹھا رہا ہے۔ 5 ہزار کے قریب کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، غیر قانونی طور پر سیاسی رہنماں کو بھی اسیر کیا جا چکا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باعث شادیاں بھی رک گئی ہیں ۔
اس دوران سینکڑوں شادیاں ملتوی ہونے کے باعث ہوٹل اور شادی ہالز کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے ۔وادی میں 30دنوں کے دوران گزشتہ روز پہلی شادی ہوئی ہے جس کا انعقاد شادی ہال میں ہونا تھا تاہم پروگرام ملتوی کر کے گھر میں بندوبست کیا گیا ۔شادی میں 800لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا تاہم بندشوں اور سختی کی وجہ سے صرف60پہنچ سکے۔تقریب میں دلہن حنا رخسار اور دلہا کے اہل خانہ اور آس پاس کے افراد شریک ہو سکے تاہم دور دراز کے رہائشی شادی کی تقریب میں شریک نہیں ہو سکے ۔
27 سالہ حنا ہر دلہن کی طرح اپنی زندگی کے انتہائی اہم دن کے لیے پرجوش تھیں اور ایک عرصے سے شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔حنا افسردہ ہیں کہ ان کی شادی کا مزا کرکرا ہو گیا ہے۔ یہ لمحے میری زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں آئیں گے۔یہ کسی بھی دلہن کی زندگی کا سب سے بڑا دن ہوتا ہے اور یہ بدمزہ ہو گیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میرا دل کر رہا ہے کہ میں روں اور مودی سے کہوں کہ تمہاری وجہ سے میری زندگی کا اہم دن خراب ہوا۔حنا کے لیے ان کی شادی کا دن پرمسرت اور یادوں سے بھرپور ہونا چاہیے تھا لیکن اس وقت وہ ذہنی تنا کا شکار ہیں۔