واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کیا، خطاب کرنے کے بعد انہوں نے امریکی ادارہ امن کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کوئی امداد نہیں مانگی صرف ہماری بات کو سمجھنے کی درخواست کی ہے، وزیراعظم پاکستان کے اس جواب پر حاضرین نے تالیاں بجا کر داد دی،
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جمہوریت کے استحکام سے وابستہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے اور طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔ اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، حکومت مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو اسی مذہبی گروپ نے ریاست کو 2 دن تک یرغمال بنائے رکھا لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے کا احترام اور اقلیتی خاتون کا استحقاق مجروع نہیں ہونے دیا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے مذہب اور آئین میں اقلیتوں کو دیگر شہریوں کی طرح یکساں حقوق حاصل ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں کیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ مر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں،
اگر مذکورہ ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کی دولت تو واپس لی جاسکتی ہے لیکن تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سات سال قبل تحریک انصاف اپنے سیاسی عروج پر تھی۔ہم نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی، لوگ کرپشن اور غربت کا آپس میں تعلق نہیں سمجھ پاتے تھے۔2013ء کے الیکشن میں چارصوبوں میں ایک صوبے میں حکومت بنائی اور 2018ء کے الیکشن میں ایک صوبے میں کارکردگی دکھانے کی بنیاد پر پاکستان میں حکومت بنائی۔
ہمیں گزشتہ 10مہینوں میں بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔بڑا چیلنج دیوالیہ پن اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ میں فرق ہے کہ جب حکمران ملک میں کرپشن سے پیسا بناتے ہیں تو وہ پیسا پھر بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں۔جس سے دو نقصان ہوتے ہیں کہ ایک پیسا جو لوگوں پر خرچ ہونا تھا وہ کرپٹ لوگوں کی جیبوں میں چلا گیا اور دوسرا نقصان وہ پیسا ملک سے باہر منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے میری رائے ہے جو میں نے صد رٹرمپ سے بھی شیئر کی ہے کہ کھربوں ڈالرانسانوں پر خرچ کرنے کی بجائے پسماندہ ممالک سے مغربی ممالک میں آف شوراکاؤنٹس میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ہم بھی اس صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے اداروں کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے، ٹیکس کے نظام کو بہتر ہو، اگر ادارے مضبوط بن جائیں تو پھر پیسا باہر منتقل نہیں ہوسکتا۔پیسا باہر منتقل ہونے سے ترقی پذیر ممالک مزید نیچے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں امریکا کو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے خدوخال کے بارے میں ناقص معلومات تھیں، میں نے ڈیموکریٹس کے اراکین سے ملاقات میں انہیں بتایا تھا کہ عسکری کارروائی کے ذریعے کابل سمیت دیگر شہروں میں امن نہیں لایا جاسکتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کام کریں تو افغان امن عمل کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ
نائن الیون کے حملوں میں کوئی بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان اور ایران کیساتھ میں تعلقات میں بہتری لا رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آپ کو امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں پڑتے ہیں اگر چاہیں یا نہ چاہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ٹرمپ سے ملاقات کر کے ہمیں خوشی ہوئی۔پاکستان وزیراعظم نے کہا کہ 2001 سے 2013 تک پاک امریکہ تعلقات نہایت خراب رہے اوریہ بد ترین دورتھا۔عمران خان نے کہا کہ میں شروع سے کہتا آیا ہوں کہ افغان مسئلے کا حل جنگ میں نہیں ہے اور اب سب جانتے مسئلہ سیاسی مذاکرات سے حل ہوگا۔امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان زیادہ مدد نہیں کر رہا
اور ہم سمجھتے ہیں پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کیا ہے۔ افغان جنگ میں پہلا موقع ہے کہ امریکہ اور پاکستان ایک صفحے پر ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں نے ہمیشہ محسوس کیا پاک امریکہ تعلقات کی وجہ صرف سیکیورٹی رہی ہے، سوویت یونین کے بعد امریکہ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا اور پاکستان کو فرقہ واریت، منشیات اور افغان مہاجرین جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ نائن الیون کے بعد 2001 میں جب کہ مشرف مشورہ کیا تو میں نے اختلاف کیا تھا اور بعد میں کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے کیوں کہ فوج نے مجاہدین کو بنایا اور بعد میں وہی فوج کے دشمن ہو گئے۔ہم قبائلے علاقوں میں ا?پریشن کرنا نہیں چاہتے ہیں لیکن امریکہ کی خواہش پر ایسا کیا۔
فوج عوام کے لیے نہیں بنائی جاتی وہاں کے عوام فوج اور دہشت گردوں کے درمیان متاثر ہو رہے تھے جس نے ملک کو جہنم بنا دیا۔ہم پہلی حکومت ہیں جو جہادی تنظیموں کیخلاف کارروائیاں کر رہے اور ان کے دفاتر بند کیے جا رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ہمیں افغانستان میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے، میں نے پاک فوج سے بات کی ہے اور ہماری پالیسیوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔پاکستان کی فوج اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ افغانستان کے مسئلے میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور وہ اپنے مسائل خود حل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ٹرمپ سے کوئی عسکری امداد نہیں مانگی۔ہم چاہتے ہیں افغانستان کے تمام ہمسایہ ملک مل کر وہاں قیام امن کے لیے کام کریں لیکن کچھ ممالک ایسے ہیں جو وہاں امن نہیں چاہتے۔
پاکستان سعودی عرب، دبئی کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں لیکن جب ایران کا معاملے کو سمجھنا آسان نہیں رہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی سرحدوں پر امن قائم رکھیں۔ہماری حکومت نہیں سمجھتی ایران کیخلاف جارحیت کی جائے اور اگر پاکستان کو کوئی ذمہ داری ادا کرنی پڑے تو مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرے گا کیوں اس تنازعے کے پاکستان پر برے اثرات ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم ملک میں این جی اوز کے متعلق نئے قوانین بنا رہے ہیں۔شکیل آفریدی کی این جی او سامنے آمنے کے بعد جہادیوں نے این جی اوز اور پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا لیکن ہم معاملے دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کے فیصلے بعد میڈیا نے نوازشریف کو سپورٹ کیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حال ہی میں جج کی ویڈیو سامنے لائی گئی ہے۔ ۔عمران خان نے کہا کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوا کہ دو پارٹیوں کی موجودگی میں تیسری سیاسی جماعت جیت سکے لیکن ہم نے نوجوانوں کی مدد ایسا کر دکھایا ہے۔ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنے قبائلیوں کا جانتا ہوں ہمیں وہاں فوج نہیں بھیجنی چاہیے تھی،
جب میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی جو مجھے طالبان خان کہا گیا۔پشتون تحفظ موومنٹ آغاز میں درست تھی کیوں کہ اس کے پیچھے غصہ تھا اور وہاں ہونے والی تباہی کی ذمہ داری فوج پر ڈالی جا رہی تھی۔مسئلہ وہاں سے شروع ہوا جب پشتون تحفظ موومنٹ نے فوج پر تنقید اور حملے زیادہ کر دیے لیکن اب وہاں الیکشن ہوئے ہیں اور مسائل کم ہوں گے۔یہ ہمارے لیے بہتر ہے کہ وہاں کسی جہادی تنظیم کو پنپنے نہ دیں کیوں کہ اس کا معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اب ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ جہادیوں گروپوں کو ختم کیا جائے گا۔ قبل ازیں امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے پاکستان ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جس میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ،علاقائی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے دیگر اہم علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔۔ ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید میں شریک تھے۔پاکستان ہاؤس پہنچنے پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا خیر مقدم کیا۔ملاقات میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید بھی موجود تھے۔