اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جان محمد کا بطور آئی جی اسلام آباد کام کرنےسے انکار، ایسے حالات میں کام نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ تبادلے کے احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دے، جان محمد کی عدالت سے استدعا، چیف جسٹس نے اعظم سواتی اور متاثرہ خاندان کے درمیان جرگے میں ہونیوالی صلح کو مسترد کر دیا، ایسے معاہدے کو عدالت نہیں مانتی ، طاقتور وزیر کے خلاف تحقیقات کروائیں گے،
چیف جسٹس ۔ تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئی جی اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ آئی جی جان محمد عدالت میں پیش ہوئے۔ جان محمد نے بطورآئی جی اسلام آباد کام کرنے سے معذرت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ بطور آئی جی اسلام آباد ایسے حالات میں کام نہیں کر سکتا ، عدالت تبادلے کے احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اعظم سواتی اور متاثرہ خاندان کے درمیان جرگے میں ہونیوالے صلح کے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ایک طاقتور وزیر کے کہنے پر سب کچھ ہوا، عدالت ایسے معاہدے کو نہیں مانتی ، چیف جسٹس نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کور ٹ آف پاکستان نے وفاقی وزیر اعظم سواتی سے ان کے اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیل طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ متاثرہ خاندان درخواست دے تو اعظم سواتی کے خلاف پرچہ کاٹا جائے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے وفاقی وزیر اعظم سواتی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ عورتوں سمیت خاندان کو اندر کرادیا ٗ یہ ہے نیا پاکستان ٗ ایسے ہوتے ہیں عوامی نمائندے ٗ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سے باز پرس نہیں ہوسکتی ؟عثمان بزدار کیس میںیہ سوچ کر معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ٗ
سسٹم چلنا چاہیے ٗ اب دیکھیں گے آرٹیکل 62ون ایف کا کہاں اطلاق ہوتاہے ؟ ٗمنسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے، اس کیس میں ہم آئندہ کیلئے لائن طے کریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے؟کیس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنائیں گے اور ڈی جی ایف آئی اے سے تفتیش کرائیں گے ۔ بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی
میں تین رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کی سماعت کی ۔عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے والے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر اعظم سواتی پیش ہوئے ٗاٹارنی جنرل خالد جاوید، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری داخلہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے والے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر اعظم سواتی
پیش ہوئے، اٹارنی جنرل ٗ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری داخلہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت کے بارے میں اس طرح کا طنزیہ بیان کیوں دیا جس پر انہوں نے کہاکہ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو آپ بتا دیں کیا بیان دیا تھا ٗ آپا زبیدہ کی کہانی آپا زبیدہ کی زبانی سن لیتے ہیں ٗمیں نے خود سنا ہے ٗابھی عدالت میں آپ کا بیان چلا دیتے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں عدالت کا بے حد احترام کرتا ہوں، میری جرات ہی نہیں کہ عدالت کے بارے میں کوئی بات کروں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیورو کریسی کو کردار ادا کرنا ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے یہ بیان کس کا ہے جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ میرا اشارہ عدلیہ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔چیف جسٹس نے آئین کی کتاب لہرا کر فواد چوہدری کو کہا کہ آپ آرٹیکل فوراً پڑھیں ٗ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔فواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ یہ بھی تو مناسب نہیں کہ آئی جی منسٹر کا فون نہ سنے اور نہ کال بیک کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر ہے تو کیا ہوا کیا قانون سے بالا ہے، ایک عام آدمی اور ایک طاقتور وزیر کا کیا مقابلہ ہے، اگر آپ اپنے بیان پر اصرار کر رہے ہیں تو پھر میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں بالکل بھی
اصرار نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے آپ کا معاملہ علیحدہ کر دیتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق بعد ازاں سپریم کورٹ نےوزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی وضاحت قبول کرلی چیف جسٹس نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی سے مکالمے کے دوران کہا کیا آپ نے سارا کیس ٹی وی پر لڑنا ہے، آپ نے عورتوں سمیت خاندان کو اندر کرا دیا، کیا وہ آپ کی
طاقت کے لوگ ہیں، ان کے گھر تین دن سے چولھے نہیں جلے۔اعظم سواتی نے کہا کہ مجھے دھمکی آئی تھی کہ بم سے اڑا دیا جائیگا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کا رقبہ کتنا ہے اور آپ نے قبضہ بھی کیا ہوا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیاسواتی صاحب آپ سے اپنی انا نہیں سنبھالی جاتی، آپ کو تو لڑائی میں بڑے کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، یہ ہیں صادق اور امین لوگ؟ جس کے ذمے ل
وگوں کی حفاظت ہے، آپ کو خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنائیں گے اور ڈی جی ایف آئی اے سے تفتیش کرائیں گے۔چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو حکم دیا کہ (آج) جمعرات کو اپنی اور بچوں کے تمام اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کریں ٗعدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کرنےکا حکم دیا۔عدالت نے متاثرہ خاندان کی
درخواست دینے کی صورت میں اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ بھی درج کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے ٗاب دیکھیں گے آرٹیکل 62 ون ایف کا کہاں اطلاق ہوتا ہے، اس کیس میں ہم آئندہ کیلئے لائن طے کریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔عدالت نے سماعت جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے جیل ریکارڈ
اور ایف آئی آر منگوالی اور آئندہ سماعت پر آئی جی اور متاثرہخاندان کو بھی طلب کرلیا۔چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سینئر اینکر پرسن سلیم صافی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ آپ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، اس واقعے کی تفصیل بتائیں۔سلیم صافی نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ خاندان پہلے دن سے مقدمہ اندراج کی درخواست دے رہا ہے لیکن پولیس نے ایف آئی آردرج نہیں کی۔
سلیم صافی نے بتایا متاثرہ خاندان کو جیل بھجوانے کے بعد چھوٹے بچے بھوکے رہے جن کے پاس صرف 600 روپے تھے، پولیس کے خوف سے پڑوسیوں نے آٹا بھیجنے پربھی بچوں کو روٹی نہیں پکا کر دی۔سلیم صافی کے مطابق گزشتہ روز فاٹا ارکان پارلیمنٹ سے کچھ کو بلا کر خاندان سے زبردستی صلح کی کوشش کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہکیا یہ ہیں وہ لوگ جنہیں لوگوں
کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے؟، چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا آپ سمجھتے ہیں آپ سے باز پرس نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا گیا سپریم کورٹ آئی جی کو نہیں ہٹا سکتی، چیف جسٹس نے آئین کی کتاب کو لہرا کر کہایہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے اس آئین کے تحت وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ
وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن وزیراطلاعات نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، کیا اس طرح بیان دیا جاتا ہے ایسا ہم سوچ بھی نہیں سکتے، غیر ذمہ داری کی بھی حد ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اطلاعات جو قانون دان بھی ہے وہ یہ بیان دیتا ہے کہ ایگزیکٹو نے حکومت چلانی ہے تو الیکشن کس بات کے، انہوں نے یہ بیان دے کر کس ادارے پر طنز کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہوزیراعظم وزیرداخلہ
کا قلم دان بھی رکھتے ہیں سیکرٹری داخلہ کو علم ہی نہیں تھا، آپ کا منسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی کے گھر گائے گھس گئی کون سی قیامت آگئی، بچوں کو پکڑ کے اندر کرا دیا اور ٹی وی پر کہہ رہا ہے اپنی پوزیشن واضح کروں گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراطلاعات کس طرح کی باتیں کررہے ہیں،
وہ تو قانون دان بھی ہیں جس پر کمرہ عدالت میں موجود فواد چوہدری کے بھائیچوہدری فیصل نے کہا کہ فواد چوہدری نے عدالت کی تضحیک نہیں کی چیف جسٹس نے کہا جیو اور دیگر چینلز سے وزیر اطلاعات کی ٹیپ منگوائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری ریاست کے ترجمان ہیں، کیا ریاست کا ترجمان ایسا ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کی
رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر مملکت شہریار آفریدی نے وزیراعظم کو آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کا کہا تھا اور چند روز قبل وزیرخزانہ اسد عمر نےبھی آئی جی کی تبدیلی کے لیے کہا تھا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزراء آئی جی اسلام آباد کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، آئی جی کے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں جرائم اور منشیات میں اضافہ ہوا۔اٹارنی جنرل نے
کہا کہ جان محمد کے تبادلے کی سمری تیار کرنے کا حکم وزیر اعظم نے دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کیا آتش فشاں پھٹ گیا تھا کہ آئی جی کے خلاف فوری اقدام کیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے لیے وزیراعظم نے پرنسپل سیکرٹری سے پہلے ہینام طلب کر رکھے تھے، ناصر درانی سے کہا گیا تھا کہ حکومتی وڑن کے مطابق اسلام آباد کے لیے امیدوار کا نام دیں
اور 19 ستمبر کے بعد آئی جی اسلام آباد کے لیے انٹرویوز شروع ہوچکے تھے۔عدالت کو اٹارنی جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ آئی جی اسلام آباد کے لیے 2 آفیسرز کے انٹرویوز بھی کر لیے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہتے ہیں کہ آئی جی کو نگران حکومت نے لگایا تھا، آپ نے تبادلہ کرنا تھا اور پنجاب میں تو آپ نے خود لگائے گئے آئی جی کا تبادلہ کردیا اورناصر درانی
استعفیٰ دے کر چلے گئے۔چیف جسٹس نے کہا آپ کی کیا کارکردگی ہے، نظر آرہی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ بات درست کہ اعظم سواتی کی شکایت ملنے پر وزیراعظم نے زبانی احکامات دیے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے فوراً سمری بنا کر بھجوائی اور وزیراعظم نے آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کی منظوری دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئی جی کو تو 27 اکتوبر کو ہٹا دیا گیا تھا،
زبانی احکامات کی تصدیق 29 اکتوبر کو ہوئی، آئی جی کو تو سمری کی منظوری سے پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رول فائیو الیون اے میں وزیراعظم زبانی حکم دے سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا رول کے مطابق یہ اختیار ہنگامی صورتحال میں ہوتا ہے، یہ تو آپ کی طوطا کہانی تھی ہوگئی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ آئی جی اسلام آباد کے خلاف الزامات کیا تھے،
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب انٹرویوز ہوگئے تھے کسی امیدوار کو سلیکٹ کرلیا تھا تو ایمرجنسی کی کیا ضرورت تھی، تبادلہ روٹین میں کردیتے، کیا زبانی حکم دے دینا، گھر بھیج دو ہتھکڑی لگا دو قانون کی حکمرانی ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس ثاقب نثار آئی جی اسلام آباد تبادلہ از خود نوٹس کیس میں وفاقی وزیر اعظم سواتی پر برہم ہوگئے۔آئی جی اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی
سماعت کے د وران طلبی پر اعظم سواتی عدالت میں پیش ہوئے،اس دوران جسٹس ثاقب نثار وفاقی وزیر پر برہم ہوئے اور کہا کہ آپ کو سارا کیس ٹی وی پر لڑنا ہے کیا؟ آپ نے عورتوں سمیت خاندان کو اندر کرا دیا،کیا وہ آپ کی طاقت کے لوگ ہیں؟ اْن کے گھر 3 دن سے چولہے نہیں جلے۔جس پر اعظم سواتی نے کہا کہ مجھے دھمکی آئی تھی کہ بم سے اڑادیا جائے گا۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر
سے استفسار کیا کہ آپ کا رقبہ کتنا ہے؟ آپ نے قبضہ بھی کیا ہوا ہے،(آج) جمعرات کو اپنی اور بچوں کے تمام اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کریں۔چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ عدالت کا حکم ہے کہ مذکورہ خاندان درخواست دے تو اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے۔چیف جسٹس نے سلیم صافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
اس کیس کی تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنائیں گے،آپ نام تجویز کردیں، جس پرسلیم صافی نے کہا کہ وہ باجوڑ آپریشن کے متاثرہ لوگ تھے۔عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی اور متاثرہ خاندان کو طلب کیا جائے، میں پارلیمنٹرینز کی عزت کرتا ہوں،عثمان بزدار کو اس لئے معاف کیا کہ نظام کو چلنے دینا چاہتے ہیں۔بعد ازاں کیس کی سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔