اسد قیصر بمقابلہ خورشید شاہ کانٹے دار مقابلے کے بعد قومی اسمبلی کا سپیکر کون بن گیا؟ پارلیمنٹ میں جشن کا سماں

15  اگست‬‮  2018

اسلام آباد(این این آئی)الیکشن 2018 میں منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کرلیا جس کے بعد نو منتخب سپیکر نے اٹھایا ٗ پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے 176ووٹ حاصل کئے ٗ خورشید شاہ کو 146ووٹ ملے ٗ 8ووٹ مسترد ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار اسد قیصر کے منتخب ہوتے ہی پاکستان مسلم لیگ (ن)نے شدید احتجاج کیا۔

تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے سامنے آ کر جعلی مینڈیٹ ٗ جعلی مینڈیٹ ٗ ووٹ کو عزت دو ٗ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے ٗ شاہ محمود قریشی اور دیگر پی ٹی آئی ارکان لیگی ارکان کو بٹھانے کی کوشش کرتے رہے ٗ جواب میں پی ٹی آئی ارکان نے بھی نعرے لگائے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان خاموش رہے ٗ شدید احتجاج کے بعد نئے سپیکر اسد قیصر کو اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر نا پڑا ۔بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دور ان سپیکر قومی اسمبلی کیلئے خفیہ ووٹنگ ہوئی ٗ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سپیکر کیلئے اسد قیصر اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے سید خورشید شاہ امیدوار تھے ۔خفیہ ووٹنگ کے بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ خورشید شاہ نے 146 ووٹ حاصل کیے اور 30 ووٹوں کی برتری سے اسد قیصر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اسپیکر نے بتایا کہ 8ووٹ مسترد ہوئے ۔مذکورہ اعلان کے بعد ایاز صادق نے اسد قیصر سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کا حلف لیا اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن)نے اراکین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے جعلی مینڈیٹ ٗ جعلی مینڈیٹ اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے ٗ لیگی اراکین نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی تصاویر اٹھا کر عمران خان کے سامنے آکر شدید احتجاج کیا اراکین میں لیگی خواتین بھی شامل تھیں۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خا ن خاموش رہے تاہم شاہ محمود قریشی ٗ شیریں مزاری اوردیگر پی ٹی آئی اراکین مسلم لیگ (ن)کے اراکین کو بٹھانے کی کوشش کرتے رہے تاہم اس موقع پر پی ٹی آئی کے کئی اراکین نے جوابی نعرے لگائے جس پر قومی اسمبلی کے نئے اسپیکر اسد قیصر نے ایوان کو متعدد مرتبہ آرڈ میں آنے کیلئے کہا لیکن احتجاج جاری رہا، اس پر اسپیکر نے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر دیا اور ساتھ ہی ایوان کو بتایا کہ کچھ دیر بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز ہوگا اور اس میں ڈپٹی اسپیکر کے لیے خفیہ رائے شماری کی جائے گی۔

اجلاس کے ملتوی ہونے کے باوجود بھی لیگی اراکین کی جانب سے نعرے بازی کی جاتی رہی ۔ قبل ازیں بدھ کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کیلئے ایوان زیریں کے اجلاس کا آغاز ممکنہ طور پر 10 بجے ہونا تھا تاہم اراکین کی آمد میں تاخیر کے باعث اجلاس کا آغاز 10 بج کر 40 منٹ پر ہوا۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے اپنے اراکین قومی اسمبلی کیساتھ اجلاس میں شریک ہوئے ۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے باعث تاخیر سے اجلاس میں شریک ہوئے۔اجلاس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، اسد قیصر کو اسپیکر کے عہدے پر کامیاب کروانے کیلئے لابنگ میں مصروف رہے اور انہوں ںے مختلف ارکان کی نشستوں پر جا کر ووٹ کی درخواست کی ٗ عمران خان نے صاحبزادہ محبوب سلطان کی نشست پر جا کر ان کی مرحوم والدہ کیلئے فاتحہ خوانی کی۔

ایوان زیریں کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں اسمبلی کے نئے اسپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوا۔اجلاس کے آغاز میں کچھ نومنتخب اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا۔ یاد رہے کہ یہ اراکین الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں زیر التوا کیسز کے باعث 13 اگست کو حلف نہیں اٹھا سکے تھے۔نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سے متعلق اسپیکر ایاز صادق کے اعلان کے ساتھ ہی ایوان کو پولنگ اسٹیشن میں تبدیل کردیا گیا۔

جس کے ساتھ ہی ووٹنگ کا عمل شروع ہوا اور یہ انتخاب قومی اسمبلی کے رول 9 (3) کے تحت ہوا۔اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دوران کسی بھی رکن کو موبائل سے ووٹ کی تصویر بنانے کی اجازت نہیں تھی اور ہر ووٹر کو بیلٹ پیپر، سیکریٹری اسمبلی کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دوران دلچسپ صورت حال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ووٹ کیلئے عمران خان کا نام پکارا گیا اور پی ٹی آئی چیئرمین پولنگ افسر کے سامنے پیش ہوئے لیکن ان کے پاس اسمبلی کا کارڈ موجود نہیں تھا۔

جس پر انہوں نے اسپیکر ایاز صادق سے ووٹ ڈالنے کے لیے اجازت طلب کی اور جس پر اسپیکر نے انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسپیکر کیلئے ہونے والے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے بعد کچھ دیر کے لیے قومی اسمبلی سے چلے گئے۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے اعتراض اٹھایا کہ میرا شناختی کارڈ نہیں تھاجس پر اسٹاف نے کہا کہ کارڈ لے آئیں یا دوبارہ اسمبلی کارڈ بنوا کر لائیں۔

عمران خان نیازی کے پاس کارڈ نہیں تھا، لیکن انہیں اجازت دی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام ارکان برابر ہیں، سب سے یکساں سلوک ہونا چاہیے۔جس پر اسپیکر ایاز صادق نے عبدالقادر پٹیل سے کہا کہ اگر آپ بھی پوچھ لیتے تو آپ کو بھی اجازت دے دی جاتی ٗمیرے لیے تمام ارکان برابر ہیں۔انتخاب کیلئے امیدواروں نے اپنے 2، 2 پولنگ ایجنٹس کے نام اسپیکر کو دیئے تھے جبکہ ووٹرز لسٹ کے مطابق تمام ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔

جس کے بعد اسپیکر نے ووٹنگ عمل کے اختتام کا اعلان کیا۔اس کے بعد امیدواروں اور پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، جس کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے سب کے سامنے نتیجے کا اعلان کیا۔الیکشن 2018 میں منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کو ایوان زیریں کا اسپیکر منتخب کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے انتخابات 2018 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف قومی اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور رہنماؤں نے قومی اسمبلی کے باہر احتجاج کیا، اس موقع پر انہوں نے بازوں پر سیاہ پٹیاں اور ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر مختلف نعرے درج تھے، مسلم لیگ (ن) کے مظاہرے کی صدارت مریم اورنگ زیب کررہیں تھی۔

خیال رہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ آئے گا اس سلسلے میں کاغذات نامزدگی 16 اگست دن 2 بجے تک جمع ہوں گے جس کے بعد وزیراعظم کا انتخاب اگلے روز 17 اگست کو ہوگا۔عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پی ٹی آئی نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف وزیراعظم کے مشترکہ امیدوار ہیں تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کے نام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی تاریخ 18 اگست مقرر کی گئی ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…