آج سے جوائنٹ اپوزیشن نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کر دی‘ آج سات جماعتوں کے نمائندوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج بھی کیا‘ نعرے بازی بھی کی اور الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار بھی کیا جبکہ ایم ایم اے اور اے این پی نے کے پی کے اور بلوچستان میں سڑکیں بلاک کر دیں جس کی وجہ سے بنوں‘ صوابی‘ قلات‘ مستونگ‘ خضدار‘ نوشکی‘ خاران‘ تفتان اور کوئٹہ میں ٹریفک بند رہی‘ آج احتجاج کا پہلا دن تھا‘
یہ احتجاج نہ جانے کب تک جاری رہے اور نہ جانے کب تک کون کون سی سڑک بند رہے گی۔ آپ اس قوم کا المیہ دیکھئے2013ء کے الیکشن کے بعد یہ احتجاج عمران خان کر رہے تھے اور میاں نواز شریف اسے غیر قانونی قرار دے رہے تھے اور آج ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی عمران خان کی جگہ کھڑی ہے اور عمران خان کی جماعت ن لیگ جیسے جواب دے رہی ہے، آپ المیہ دیکھئے صرف چہرے اور پوزیشنیں بدل رہی ہیں‘ موقف سیم ہیں‘ بس ایک چیز مستقل ہے اور وہ چیز عوام اور ان کے دکھ ہیں‘ 2018ء تک عوام عمران خان کے احتجاج کا وکٹم رہے اور یہ آج سے متحدہ اپوزیشن کے ہاتھوں خوار ہونا شروع ہوگئے ہیں‘ کل وہ ٹریفک بلاک کرتے تھے اور آج سے ان لوگوں نے سڑکوں سے دھاندلی کا بدلہ لینا شروع کر دیا‘ ان سڑکوں‘ اس عوام اور اس ٹریفک کا کیا قصور ہے‘ آپ نے جو بھی کرنا ہے آپ پارلیمنٹ میں جا کر کریں عوام کی زندگی کو کیوں اجیرن بنا رہے ہیں۔ عوام کہاں جائیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہو گا جبکہ اپوزیشن نے آج مطالبہ کر دیا، نتائج نہیں مانتے، چیف الیکشن کمیشن مستعفی ہوں، کیا یہ مطالبات جائز ہیں‘ آج کا احتجاج غیر منظم‘ ڈائریکشن لیس اور لیڈر لیس تھا‘ ایجنڈا اور ہدف بھی کلیئر نہیں تھا‘ کیا اپوزیشن سپرٹ کے اس فقدان کے ساتھ اپنے مطالبات منوا لے گی اور عمران خان نے کے پی کے کیلئے ایک غیر معروف اور ڈھیلے ڈھالے محمود خان کو سی ایم بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ پنجاب میں بھی ایک ایسا ہی سی ایم آئے گا‘ کیا عمران خان مضبوط اور مشہور سی ایمز سے خوفزدہ ہیں‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے ہمارے ساتھ رہیے گا۔