اسلام آباد(آن لائن)انتخابات 2018 میں مبینہ دھاندلی پر احتجاج اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پارلمنٹ میں کڑا وقت دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن (پی اے ایف ایف ای) تشکیل دیدیا ہے ۔ہفتہ کو پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر مشاہد حسین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 11 جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن الائنس اسلام آباد میں 8 اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرے گی ۔
اگلے ہی روز صوبائی الیکشن کمیشن کے دفاترکے باہر احتجاج ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پی اے ایف ایف ای اپنے نومنتخب امیدواروں کو بھی ای سی پی کے باہر احتجاج کے لیے کال کرے گی‘قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی اور پارلمنٹ کے باہر احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے۔سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ پارلمنٹ کے اندر اور باہر سخت احتجاج ہوگا لیکن اس کا دائرہ کار جارحانہ نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جلد ازجلد جماعتیں عوامی اجلاس کا ارادہ رکھتی ہیں تاہم دھاندلی پر نیشنل کانفرنس کے انعقاد بھی سوچا جارہا ہے جس میں سول سوسائٹی، وکلاء اور صحافیوں کو مدعو کیا جائیگا۔دیگر جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان (نورانی) نے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا ہے۔مشاہد اللہ نے کہا کہ اجلاس میں شہباز شریف کا نام بطور وزیراعظم زیر بحث آیا تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف پارٹی کے کسی سینئر کا نام بھی تجویز کر سکتے ہیں۔دوسری جانب پاکستان پیلز پارٹی کی سینئر رہنما شیریں رحمٰن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں پارٹی کے اندر سید خورشدشاہ کو اپویشن لیڈر بنانے کے لئے گرین سگنل مل چکا ہے۔
ایجنڈا اور منشور مختلف ہونے کے باوجود تمام جماعتوں نے دھاندلی شدہ انتخابات کو مسترد کردیا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایک پارٹی کو ’مداخلت‘ کے ذریعے کامیاب کیا گیا اور وہ ’کٹھ پتلی حکومت کیخلاف لڑیں‘ گے۔ایم ایم اے کے جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ نے کہا کہ تمام جماعتوں نے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا اور ’آئین اور جمہوریت کے تحفظ‘ کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تمام اختیارات حاصل تھے لیکن وہ مبینہ طور پر اپنے اختیارات سے دستبردار ہو گیا۔