ہماری جمہوریت میں ایک مسنگ ایلیمنٹ ہے اور وہ ایلیمنٹ عوام ہیں‘ آپ اپوزیشن کو لے لیجئے ملک میں پہلی بار الیکشن کے سات دن کے اندر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اپوزیشن اتحاد بن گیا اور اس اتحاد میں وہ تمام پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئیں جو دس سال سے ایک دوسرے کو کرپشن کی دلدل‘ سیکورٹی رسک‘ احسان فراموش اور سینٹ کا الیکشن چور قرار دے رہی ہیں لیکن جوں ہی الیکشن میں ان پارٹیوں کے مفادات اور توقعات کو نقصان پہنچا یہ سات دن کے اندر اندر اکٹھے ہو گئے‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ لوگ دس سال میں عوام کے کسی ایک ایشو پر اکٹھے ہوئے‘ یہ کم از کم دہشت گردی‘ صحت‘ تعلیم اور صاف پانی کے مسئلوں پر ہی اکٹھے ہو جاتے‘ یہ کم از کم تین کروڑ بے روزگاروں‘ سولہ سترہ لاکھ مقدموں‘ پولیس گردی‘ ملاوٹ‘ قوم کی عزت‘ قوم کے وقار پر ہی اکٹھے ہو جاتے یا پھر یہ مل ملا کر عوام کیلئے کوئی میثاق روزگار ہی کر لیتے لیکن نہیں کیا‘ یہ لوگ عوام کے ہر ایشو پر ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر اپنے ذاتی مفاد میں ایک جان اور سات آٹھ قالب ہیں‘ میں متحدہ اپوزیشن کو ایک اچھی روایت سمجھتا ہوں لیکن میری درخواست ہے آپ عوامی ایشوز کو بھی اپنے ٹی او آرز میں شامل کر لیں تا کہ فیوچر میں عوام کو اپوزیشن سے بھی کچھ نہ کچھ مل جائے‘ یہ اپوزیشن کا کردار تھا‘ آپ اب مستقبل کے حکمرانوں کو بھی دیکھ لیجئے‘ عمران خان نے آج تک عوام کیلئے ایم کیو ایم یا آزاد ارکان سے ہاتھ نہیں ملایا‘ یہ ایم کیو ایم اور آزاد ارکان کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے لیکن یہ آج پرانے پاکستان کی پرانی پارٹیوں کی طرح انہی لوگوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں اگر اپوزیشن کی پارٹیاں ذاتی مفادات کیلئے اکٹھی ہو رہی ہیں تو یہ بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں‘ انہوں نے بھی پہلے الیکشن جیتنے کیلئے الیکٹ ایبلز کو قبول کر لیا تھا اور آج یہ ایم کیو ایم اور آزاد ارکان کا کڑوا گھونٹ بھی بھر رہے ہیں چنانچہ اصول اور عوام ان کی فلاسفی میں بھی مسنگ ہیں‘ ان کو بھی اپنی اصلاح کرنا ہو گی ورنہ ان کو بھی اسی گرینڈ اپوزیشن کا حصہ بنتے دیر نہیں لگے گی۔ آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں،کیا اپوزیشن عمران خان کو آسانی سے حکومت کرنے دے گی اور ایم کیو ایم آخر چاہتی کیا ہے‘ یہ دونوں نقطے ہمارے آج کے ایشوز ہوں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔