اسلام آباد(سی پی پی) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے باوجود انہیں مزید 6 ارکان کی حمایت درکار ہوگی جس کے لیے ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قومی اسمبلی کا ایوان 342 ارکان اسمبلی پر مشتمل ہے جس میں 272 جنرل نشستیں ، 60 خواتین کی خصوصی نشستیں اور اقلیتوں کی 10 نشستیں شامل ہیں مگر حکومت بنانے کے لیے کل جنرل نشستوں 272 کے حساب سے سادہ اکثریت چاہیئے جو 137 کی تعداد بنتی ہے۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے اس وقت بڑا چیلنج جنرل نشستوں پر منتخب 137 ارکان کی سادہ اکثریت حاصل کرنا ہے، چیئرمین تحریک انصاف 5 نشستوں پر کامیاب ہوئے اب انہیں 4 نشستیں خالی کرنا پڑیں گی۔تحریک انصاف کے طاہر صادق اور غلام سرور خان بھی قومی اسمبلی کی دو دو نشستوں سے کامیاب ہوئے، انہیں بھی ایک ایک نشست چھوڑنا پڑے گی۔سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے جیتے، اگر انہوں نے صوبائی نشست رکھی تو قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنا پڑے گی، یوں تحریک انصاف کے پاس 108 کا عدد رہ جائے گا۔تحریک انصاف کی اتحادی مسلم لیگ ق کی 4 نشستیں ہیں جس میں سے دو نشستوں پر کامیاب ہونے والے چوہدری پرویز الٰہی کو ایک نشست چھوڑنا پڑے گی جس کے بعد پی ٹی آئی کی مجموعی نشستیں 111 ہو جائیں گی اور شیخ رشید کی ایک نشست شامل کرنے سے تعداد 112 ہوجائے گی۔پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2 نشستیں رکھنے والے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، 6 نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم، 4 نشستیں رکھنے والی بلوچستان عوامی پارٹی اور 3 نشستیں رکھنے والی بی این پی مینگل سے رابطے جاری ہیں۔13 آزاد ارکان میں سے اب تک صرف 4 نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے،
اگر موجودہ صورت حال میں تمام نمبرز اکٹھے کیے جائیں تو بھی پی ٹی آئی اور ممکنہ اتحادیوں کے نمبرز اب تک 131 بنتے ہیں۔ تحریک انصاف کو حکومت بنانے اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے نمبر گیم پوری کرنے کے لیے مزید 6 ارکان کی ضرورت ہے، اگر ممکنہ اتحادیوں میں سے کوئی بھی آگے ، پیچھے ہو گیا یا باقی آزاد ہاتھ نہ آئے تو کھیل بگڑ بھی سکتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت وزیراعظم کا انتخاب ایوان کے مجموعی ارکان 342 کی سادہ اکثریت کے مطابق ہوگا جو 172 کی تعداد بنتی ہے ۔
تاہم ابھی انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعتوں کے درمیان خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستوں کی تقسیم ہونا باقی ہے۔الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج کے بعد ہر پارٹی کی جیتی ہوئی نشستوں کے مطابق خواتین کی خصوصی اور اقلیتی نشستوں کا تعین ہو پائے گا۔آئین کہتا ہے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے 342 کے ایوان میں 172 کی سادہ اکثریت درکار ہے، اگر ایوان میں قائد ایوان کے چنا کے وقت مطلوبہ سادہ اکثریت سے فیصلہ نہ ہو پایا تو آئین نے ایک اور راستہ بھی دے رکھا ہے ۔
ایوان میں دوسری پولنگ ہوگی اور پھر ایوان میں موجود ارکان اکثریت کی بنیاد پر قائد ایوان کا انتخاب کریں گے، اگر پھر بھی فیصلہ نہ ہوا تو تیسری بار بھی ایوان میں موجود ارکان سادہ اکثریت سے قائد ایوان کا چنا کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 64، پیپلز پارٹی 43 اور متحدہ مجلس عمل کے پاس 12 نشستیں ہیں اور یہ مجموعی تعداد 119 بنتی ہے، اگر آزاد امیدوار ان جماعتوں میں شامل ہوجاتے ہیں تو صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔