اسلام آباد(آن لائن) جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سی ڈی اے کے ایک ملازم نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کر رکھا ہے جس میں مصدقہ دستاویزات کے ساتھ الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کیلئے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف سے خصوصی حکم نامہ حاصل کیا اور پھر وہ رہائش پسند نہ آنے پر ایک دوسرا گھر پسند کیا اور یہ گھر پہلے سابق صدر پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے زیر استعمال تھا۔
گھر کی الاٹمنٹ حاصل کرنے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خلاف قانون اس کی تزئین و آرائش کیلئے سی ڈی اے کے عہدیداروں کو مجبور کیا کیونکہ یہ گھر پاک پی ڈبلیو ڈی کے پول پر تھا اور پاک پی ڈبلیو ڈی ہی اس گھر کی تزئین و آرائش کی ذمہ دار تھی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پی ڈبلیو ڈی کے افسران سے این او سی لے کر سی ڈی اے کے افسران کو دیا اور پھر اس سرکاری رہائش کی مرمت اور خوبصورتی پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے لگا دیئے گئے جس کے دستاویزی ثبوت ریفرنس کے ساتھ منسلک کئے گئے ہیں علاوہ ازیں اس ریفرنس میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے دیرینہ یار کو نوازنے کیلئے سی ڈی اے کو مجبور کیا کہ وہ اس کا کم مالیت کا پلاٹ قیمتی پلاٹ میں تبدیل کرے اور سی ڈی اے کے افسران یہ حکم مان کر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے دوست کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا ۔ مزید برآں ریفرنس کے مدعی علی انوار گوپانگ نے دستاویزات میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سی ڈی اے افسران کو مجبور کرکے اپنے ایک دوست کی بیٹی کو بھرتی کروایا اور بیٹے کی نوکری کو مستقل کروایا۔ علاوہ ازیں فاضل جج کے حکم پر سی ڈی اے نے سرکاری رہائش گاہ میں کبوتروں کا خصوصی پنجرہ بھی بنا کر دیا۔