اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان جسٹس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا کہ نواز شریف کے خلاف میری جماعت نے ہی ریفرنس دائر کیا تھا اور یہ سلسلہ چلتا رہا اور یہ فیصلہ آ گیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ اس فیصلہ پر میر ے خدشات درست ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر فیصلہ دے دیا گیا۔
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کی طرف سے جتنے بھی شواہد پیش کیے گئے ان میں پختگی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے اتنی سرگرمی نہیں دکھائی جتنی دکھانا چاہیے تھی۔ افتخار چوہدری نے کہا کہ میاں نواز شریف کے بارے ایک لفظ نہیں کہا گیا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ پیپرز کا کیس اس لیے نہیں چلا تھا کہ جج نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ میں ان کے خلاف کوئی شہادت نہیں آئی، اس لیے یہ کیس نہیں کھل سکتا۔ انہوں نے پروگرام میں کہا کہ ان کے خلا ف کرپشن کے الزامات تھے، ان کو نیب کی جانب سے ثابت کیا جانا چاہیے تھا۔ ان کے خلاف اس حوالے سے ایک بھی شہادت پیش نہیں کی گئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو پھر آپ ان کو سز ائیں کیسے دے رہے ہیں۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت ہی کمزور فیصلہ ہے، جج صاحب نے شاید جلد باز ی میں یہ کیا ہے اور انہوں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ایک طرف تو ان کو کرپشن سے بری کر رہے ہیں اور دوسری جانب انہیں سزا بھی دے رہے ہیں، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ کیلبری فونٹ کے حوالے سے جو گواہ آیا اس کے بیان کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا اور پھر مریم نواز کو بھی سزا دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ انصاف کر رہے ہیں تو دشمن بھی سامنے کھڑا ہے تو پھر بھی آپ کو انصاف کرنا چاہیے۔ پروگرام کے دوران انہوں نے کہا کہ یہ اتنا کمزور فیصلہ ہے کہ اگر ہائی کورٹ چاہے تو اسے معطل بھی کر سکتی ہے۔