اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان کی معیشت کو کس طرح تباہی کے دہانے پر لا کھڑ کیا، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے شریف خاندان کے لیے کی جانے والی مبینہ منی لانڈرنگ اور ان کے مشہور زمانہ بیان حلف کی تفصیلات بتاتے ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسحاق ڈار خود کو معیشت کا جادوگر کہتے ہیں لیکن اگر اسحاق ڈار کو شریف فیملی بالخصوص نواز شریف کے خاندان کے زوال کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا،
اسحاق ڈار اور قاضی فیملی کی کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار ہی لندن فلیٹس کی خریداری اور اس مقصد کے لیے لندن رقم بھجوانے کے ماسٹر مائنڈ تھے، انہوں نے ہی نواز شریف کو یہ راستے دکھائے، رقم میاں نواز شریف نے فراہم کی اور اس کی ترسیل کا کام اسحاق ڈار نے بذریعہ سعید احمد اور قاضی فیملی سرانجام دیا، 25 اپریل 2000ء کو اسحاق ڈار نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر منی لانڈرنگ کا اعتراف کرکے بیان حلفی جمع کرایا، جس میں بینک اکاؤنٹس اور چیکس کی تفصیلات فراہم کیں، اس بیان حلفی کے مطابق اسحاق ڈار 60 کی دہائی کے آخر سے 70 کی دہائی کے وسط تک لندن کی قاضی فیملی کے ساتھ رہے، ان کا بھروسہ جیتا اور ان کے گھر کے فرد بنے، اور تمام قاضی فیملی کو آئینہ میں اتار لیا اور گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی، اسحاق ڈار اپنے بیان حلفی میں کہتے ہیں کہ انہوں نے 1990ء میں قاضی فیملی کی لاہور میں نواز شریف سے ایک فنکشن میں ملاقات کروائی، ذرائع کے مطابق قاضی فیملی پاکستان آتی رہی اور انہیں سپیشل پروٹوکول دیا جانے لگا، اسحاق ڈار نے 1990ء میں فرسٹ ہجویری مضاربہ کمپنی کے نام سے ایک نان بینکنگ فنانشل انسٹی ٹیوشن قائم کیا، 1992ء میں نواز شریف نے ان سے مضاربہ کمپنی کے ذریعے تقریباً سو ملین روپے کی منی لانڈرنگ کا شاہی فرمان جاری کیا، نواز شریف نے انہیں یقین دلایا کہ قاضی خاندان اس معاملے کی اجازت دے چکا ہے، انہوں نے شریف برادران کے حکم پر بینک آف امریکہ میں سکندر مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی کے نام پر دو فارن کرنسی اکاؤنٹس کھلوائے
جبکہ نزہت گوہر اور کاشف مسعود قاضی کے نام پر فارن کرنسی اکاؤنٹس ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر نعیم محمود نے کھلوائے، بقول کاشف مسعود قاضی 1992ء میں انہیں لاہور میں بینک آف امریکہ کی جانب سے ان کی اور ان کی اہلیہ کی بینک سٹیٹمٹ موصول ہوئیں جن میں پانچ ملین پاؤنڈز کی ٹرانزیکشن کا ذکر تھا، کاشف مسعود قاضی نے 2016ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو مبینہ طور پر ایک خط بھی لکھا جس میں الزام لگایا گیا کہ شریف خاندان نے لندن پراپرٹیز اس رقم سے خریدیں جو قاضی فیملی کے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی گئی،
اسحاق ڈار کے بیان حلفی میں یہ بھی درج ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ بے نامی فارن کرنسی اکاؤنٹس کھلوا چکے تھے، 10 جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی نے پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں اسحاق ڈار کے اثاثوں کے متعلق ہوشربا انکشافات کیے گئے، اسحاق ڈار پر معلوم آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام تھا، جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ 1991ء سے 1993ء میں اسحاق ڈار کے پاس 9.1 ملین کے اثاثے تھے صرف سترہ برسوں میں ان اثاثوں میں نو ہزار فیصد کی شرح سے یعنی 822.5 ملین کا اضافہ ہوا اور 2008ء سے 2009ء میں ان کی کل مالیت 831.6 ملین روپے ہو گئی
یہ اضافہ 91 گنا بنتا ہے اس کے دفاع میں اسحاق ڈار نے 17جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے روبرو متحدہ عرب امارات کے حاکم شیخ مبارک بن نہیان النیہان کے تین خطوط پیش کیے، جس میں انہیں مالیاتی مشاورت دینے پر 2003ء سے 2005ء میں انہیں 82 لاکھ پاؤنڈز ادا کیے گئے، یہ شاہی فرمان ایک سادہ کاغذ پر لکھا گیا تھا کہ 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کے فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف بھی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا، 8 ستمبر 2017ء کو نیب عدالت نے اسحاق ڈار پر ریفرنس دائر کر دیا، 27 ستمبر 2017ء کو ان الزامات کی بنیاد پر اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کر دی،
اسحاق ڈار 27 اکتوبر 2017ء کو عمرے کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس گئے، وہاں اسحاق ڈار کو دوبارہ دل میں تکلیف ہو گئی اور پاکستان آنے کے بجائے وہ لندن روانہ ہو گئے، جس پر عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دے دیا۔ صرف قرضوں کی ہی بات کی جائے تو 2013ء میں ملک پر 60.9 ارب ڈالر کا بیرونی اور 9.5 کھرب روپے کے اندرونی قرضے واجب الادا تھے، 2018ء میں اسحاق ڈار کی کرامت سے پاکستان 91.74 ارب ڈالر کے بیرونی اور 16 کھرب کے اندرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ یوں گزشتہ پانچ سالوں میں بیرونی قرضوں میں انچاس فیصد جبکہ مقامی قرضوں میں 61 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔