اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر)محمد صفدر کیخلاف پہلی سماعت 14ستمبر 2017کو کی ، تقریباً ساڑھے 9 ماہ بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا ۔ تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب )نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز،
داماد کیپٹن (ر)محمد صفدر اور دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کیخلاف 8ستمبر 2017 کو عبوری ریفرنس دائر کیا جس میں انہیں ملزم نامزد کیا۔جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا جس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔8 ستمبر 2017کو نیب نے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، ان کے تینوں بچوں اور داماد کے خلاف عبوری ریفرنس دائر کیا۔احتساب عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے انہیں ریفرنس سے الگ کیا۔19 اکتوبر 2017 کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر براہ راست جب کہ نواز شریف پر ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فردِ جرم عائد کی گئی۔ نیب نے مزید شواہد ملنے پر 22 جنوری 2018 کو اسی معاملے میں ضمنی ریفرنس دائر کیا۔ایک موقع پر مسلسل غیر حاضری پر عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جس کے ایک ماہ بعد یعنی 26 ستمبر کو نواز شریف پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز 9 اکتوبر کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئیں۔احتساب عدالت نے نواز شریف کے داماد کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی گرفتاری جاری کیے اور کیپٹن(ر)صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے 26اکتوبر کو مسلسل عدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔3 نومبر کو
پہلی بار نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے۔8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نواز شریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔10 جون کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نیاحتساب عدالت کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کی مدت سماعت میں تیسری مرتبہ توسیع کی درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف،
مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کے خلاف زیرسماعت تینوں ریفرنسز کا ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔11 جون 2018 کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ ہو گئے جس کے بعد ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کرایا۔ 19 جون کو خواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اور دستبرداری کی درخواست واپس لے لی۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 9ماہ 20دن تک ریفرنس کی سماعت کی اور 3جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا۔ اس دوران مجموعی طور پر 18گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا بھی شامل تھے۔