اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں کولنگ سسٹم میں خرابی کے باعث وکلاء اور سائلین کو گرمی کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیا۔ پیر کو سپریم کورٹ کے کولنگ سسٹم میں خرابی ہوگئی کمرہ عدالت میں وکلاء اور سائلین کو گرمی کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وکلاء نے بتایا کہ شدید گرمی میں اے سی کے بغیر بیٹھنا ممکن نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف کوٹ اور ٹائی لگا کر بیٹھے ہیں میں کوٹ اور ٹائی کے اوپر گائون لگا کر بیٹھا ہوں زیادہ گرمی ہے تو کوٹ اور ٹائی اتار دیں۔
دریں اثنا چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مارگلہ کی پہاڑیوں کے تحفظ کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ طلب کرلی، کمیٹی میں سی ڈی اے ا ور میونسپل کارپوریشن کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر آتشزدگی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3 دن تک جنگلات میں آگ لگی رہی، سی ڈی اے کے پاس آگ بجھانے کے آلات نہیں تھے؟۔سی ڈی اے حکام کا نے کہا کہ ہمارے پاس آگ بجھانے کے آلات نہیں ہیں، فنڈز مختص ہونے کے بعد آلات خرید لیں گے، جولائی کے تیسرے ہفتے میں آلات خریدنے کے لیے فنڈز مل جائیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ مارگلہ ہلز کے تحفظ کے لیے کمیشن تشکیل دے دیں، جو تیز رفتاری سے کام کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرے۔چیف جسٹس نے وفاقی محتسب کی سربراہی میں مارگلہ ہلز کے تحفظ کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے حکم دیا کہ 15 روز میں اپنی تجاویز عدالت کو پیش کرے۔ کمیٹی میں سی ڈی اے، میونسپل کارپوریشن کے نمائندے، کمیٹی میں سی ڈی اے ا ور میونسپل کارپوریشن کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔قبل ازیں چیف جسٹس ثاقب نثارنے جڑواں شہروں میں پانی کی قلت سے متعلق کیس میں نگراں حکومت پرتحفظات کا اظہارکر تے ہوئے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کی آدھی آبادی پانی سے محروم ہے، نگراں حکومت ابھی تک اپنے بندے پورے نہیں کرسکی،
وزیراعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پانی اوربجلی کا معاملہ خود دیکھیں، کیا حکومت صرف پانچ وزرا کے سہارے چل سکتی ہے؟ ایک دن میں سیکڑوں فائلیں آتی ہیں ،کیا ایک بندہ اتنی فائلوں کا جائزہ لے سکتا ہے؟، پانی و بجلی کے امور پر ہنگامی صورتحال میں کام کرنا ہوگا، رپورٹس آجاتی ہیں لیکن پیشرفت نہیں ہوتی۔ بتادیں وفاقی حکومت کیا ہے،اسے بلالیتے ہیں، ہر ادارہ دوسرے پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے۔
پیر کو راولپنڈی اسلام آبادمیں پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانی کی قلت کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ کیاہے، پانی کی فراہمی میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آبادکی روزانہ ضرورت 120 ملین گیلن پانی ہے ،شہری علاقوں میں 58 اعشاریہ 71ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانی کی فراہمی کن ذرائع سے ہوتی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی فراہمی سملی اور خان پورڈیم سے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خان پور ڈیم میں پانی کا لیول خطر ناک سطح کے قریب ہے جبکہ سملی ڈیم میں بھی پانی ڈیڈلیول کے قریب ہے۔میونسپل کارپوریشن حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گزشتہ 3 سال سے کم بارشیں ہورہی ہیں جس کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کی سطح کم ہوئی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تعمیرات کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح اوپر نہیں آ رہی ، بارشیں نہ ہوئیں توپانی کہاں سے ملے گا؟ ، اسلام آبادکے لوگ پانی کے بغیر تو نہیں رہ سکتے۔میونسپل حکام نے بتایا کہ پانی کی فراہمی کیلئے منصوبہ بنایا ہے۔چیف جسٹس نے کہا رپورٹس آجاتی ہیں لیکن پیشرفت نہیں ہوتی بتادیں حکومت کدھرہے؟، ہمیں حکومت کا بتا دیں تو بلا لیتے ہیں، اداروں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے،
ہر ادارہ دوسرے پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے۔ آبی منصوبے کیلئے بجٹ میں رقم مختص ہوچکی ہے، رقم کی حتمی منظوری وفاقی حکومت نے دینی ہے، نگران حکومت بھی یہ منظوری دے سکتی ہے، تمام اداروں کوایک ساتھ مل کرفیصلے کرنے چاہئیں۔چیف جسٹس نے نگران وفاقی حکومت کی نامکمل کابینہ سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت ابھی تک اپنے بندے پورے نہیں کرسکی کیا
وفاقی حکومت صرف 5 وزرا کے سہارے چل سکتی ہے؟، ایک دن میں سینکڑوں فائلیں آتی ہیں کیا ایک بندہ اتنی فائلوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پانی و بجلی کے امور پر ہنگامی صورتحال میں کام کرنا ہوگا وزیر اعظم سے درخواست کروں گا کہ پانی اور بجلی کا معاملہ خود دیکھیں اور جب تک مسئلے کا حل نہ نکلے مت اٹھیں۔