واشنگٹن\اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی سے مبینہ بدسلوکی سے متعلق رابطہ کیا ہے،پاکستانی دفتر خارجہ کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیساتھ جیل میں بد سلوکی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے لیکن ہم واضح کر رہے ہیں کہ سزا یافتہ مجرموں کے ساتھ امریکا میں عالمی انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔
ہفتہ کو ترجمان امریکہ محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بدسلوکی کے الزامات سے متعلق پاکستان کا سرکاری پیغام موصول ہوا ہے،امریکہ میں سزا یافتہ مجرموں کیساتھ امریکا میں عالمی انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے اور تمام قیدیوں سے امریکی آئین اور قانون کے مطابق برتاؤ کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ 2روز قبل ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ٹیکساس جیل میں قید عافیہ صدیقی کیساتھ مبینہ بدسلوکی کی رپورٹس کا معاملہ متعقلہ حکام کیساتھ اٹھاتے ہوئے اْن سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔جبکہ گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پر امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق خبریں بھی گردش کر رہی تھیں،تاہم ٹیکساس میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل میں ملاقات کے بعد یہ افواہیں دم توڑ گئیں تھیں۔پاکستان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک سائنسدان ہیں،جن پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔مارچ 2003 میں دہشتگرد تنظیم القاعدہ کے اہم کمانڈر اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے معاملے میں نیا موڑ اْس وقت آیا،جب امریکا نے 5 سال بعد یعنی 2008 میں انہیں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں،جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔دوسری جانب جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی افسران نے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی لیکن جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔بعدازاں عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کر دیا گیا،ان پر مقدمہ چلا اور 2010 میں ان پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد کرنے کے بعد 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔