اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیراعظم نواز شریف نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کا جواب دیتے ہوئے دھماکہ خیز انکشاف کر ڈالے، نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابقسابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ مشرف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباؤ بڑھا دیا گیا اور دھمکی نما مشورہ دیا گیا کہ بھاری پتھر اٹھانے کا ارادہ ترک کردو۔اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے
دوران بیان قلمبند کراتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آصف علی زرداری کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ پرویز مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا، یہ ہے میرے اصل جرائم کا خلاصہ، اس طرح کے جرائم اور مجرم پاکستانی تاریخ میں جا بجا ملیں گے۔نواز شریف نے کہا کہ ایک خفیہ ادارے کے افسر کا پیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلے جاؤ، مجھے اس کا دکھ ہوا کہ ماتحت ادارے کا ملازم مجھ تک یہ پیغام پہنچا رہا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ مشرف کے خلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتا ہے، سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتی ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ جنوری 2014 میں پرویز مشرف عدالت کے لیے نکلا تو طے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گیا اور پراسرار بیماری کا بہانہ بنا کر دور بیٹھا رہا، انصاف کے منصب پر بیٹھے جج مشرف کو ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2014 کے دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر، وہ جو کوئی بھی تھا اس کی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی۔نواز شریف نے کہا کہ پی ٹی وی،
پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر فسادی عناصر سے کچھ محفوظ نہ رہا، مقصد تھا مجھے پی ایم ہاؤس سے نکال دیں اور پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے۔سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، میرے راستے پر شرپسند عناصر بٹھا دیے گئے، کہا گیا وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر لشکر کشی کر کے پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف غداری کیس کو چلانا اتنا آسان نہیں اور طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹا دیا گیا، آمریتوں نے گہرے زخم لگائے ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ کاش آج یہاں لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی روح کو طلب کرسکتے اور پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا
اور انہیں آئینی مدت پوری کرنے کیوں نہیں دی گئی۔نواز شریف نے کہا کہ کاش آپ سینئر ججز کو بلا کر پوچھ سکتے کہ وہ کیوں ہرمارشل لاء کو خوش آمدید کہتے رہے، کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلا کر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نااہلی اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب و محرکات کو قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے۔نواز شریف نے
کہا کہ منصب اور پارٹی صدارت سے ہٹانے اور عمر بھر کے لیے نااہل قرار دینا واحد حل سمجھ لیا گیا جب کہ گواہ میرے خلاف ادنیٰ ثبوت بھی پیش نہ کرسکے، عملاً میرے مؤقف کی تائید ہوئی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاناما میں عالمی لیڈرز کا نام بھی تھا، کتنے سربراہان کو معزول کیا گیا لیکن پاکستان میں یہ کارروائی جس شخص کے خلاف ہوئی اس کا نام نواز شریف ہے جس کا نام پاناما میں نہیں تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف کیس ثابت نہیں کر سکا، مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں مسلح افواج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، فوج کی کمزوری ملکی دفاع کی کمزوری ہوتی ہے، قابل فخر ہیں وہ بہادر سپوت جو سرحدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں، سرحدوں پر ڈٹے ہوئے سپوت ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، ایٹمی دھماکے نہ کیے جاتے تو بھارت کیعسکری بالادستی قائم ہوجاتی، اُس وقت کے آرمی چیف اور حکام کو ہدایت دی کہ 17 دن میں دھماکوں کی تیاری کریں جب کہ دھماکے نہ کرنے پر مجھے 5 ارب ڈالر کا لالچ دیا گیا لیکن میں نے وہی کیا جو پاکستان کے وقار اور مفاد میں تھا، پاکستان کی عزت اربوں کھربوں سے زیادہ عزیز تھی۔