اسلام آباد(انٹرنیشنل پریس ایجنسی) پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی نے یہ بات تسلیم کی کہ آئی ایس آئی کے سیاسی سیل نے 1990ءکے الیکشن سے پہلے ایک سیاسی جائز ے کاعمل کیا۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ انکے باس تھے اورانہیں اس حوالے سے علم تھا۔انہوں نے کہا آئی ایس آئی کا سیاسی سیل 1975ءمیں ذوالفقار علی بھٹونے بنایا،
یہ کسی بورڈ کی سفارش تھی اوراس مقصد کیلئے ایک اسٹڈی بھی کی گئی تھی۔ممکن ہے کہ اسکا مینڈیٹ اور نام مختلف ہو لیکن اس نے 1990ءکے الیکشن سے قبل ایک سیاسی جائزے کا اہتما م کیاتھا۔ڈی جی آئی ایس آئی چیف ایگزیکٹو کے طورپر وزیراعظم ، صدر کو بحیثیت سربراہ مملکت اور کمانڈر انچیف رپورٹ کرتاہے اورتینوں مسلح افواج کے سربراہوں کوبھی آگاہ کرتاہے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ میرے باس تھے۔ جنرل درانی کے یہ چونکا دینے والے انکشافات ملک میں 1990ءکے انتخابات میں دھاندلی کیلئے سیاستدانوں میں تقریباً 148 کروڑروپے کی مبینہ تقسیم کی تحقیقات کرنیوالی ایف آئی اے ٹیم کو دیے گئے بیان میں سامنے آئے۔اس سے قبل جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے آئی ایس آئی سربراہ جنرل درانی کو 1990ءکے الیکشن سے قبل فوج کو ”سیاسی انجینئرنگ “ میں گھسیٹنے پر سختی سے تنبیہ کی تھی۔جنرل بیگ نے ایف آئی اے اور عدالت عظمیٰ کو تحریری بیان میں کہا میں نے درانی کوتنبیہ کی کہ وہ ان ( آئی ایس آئی) فنڈز کےاستعمال میں محتاط رہیں۔ اسکے بعد میں نے اس معاملے پر کبھی بھی ان( درانی) سے کوئی بات نہیں کی۔میں نے نہ انہیں سیاستدانوں کے نام دئیے اور نہ بانٹنے کے لئے کوئی رقم دی
کیونکہ یہ کلی طورپرانکادائرہ اختیارتھااوروہ صدر پاکستان کورپورٹ کرنے کے پابندتھے۔نجی ٹی وی کے مطابق جنرل درانی نے اپنے تحریری بیان میں یہ بھی اعتراف کیاآئی ایس آئی کوسیاست میں مداخلت کااختیارنہیں، خارجہ امور سے متعلق وہ ہماری متوازی انٹیلی جنس کرتے ہیں۔۔اصغر خان کیس میں سیاستدانوں وغیرہ میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کے دو مرکزی ملزمان یونس حبیب اور یوسف میمن کے حوالے سے جنرل درانی کہتے ہیں
میں نے یونس حبیب کے بارے میں سنا ہے اور ان سے عدالت میں ملا بھی ہوں، یوسف میمن کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں، میرا نہیں خیال کہ کوئی Nomenclature((الیکشن سیل ) تھا۔کچھ مخصوص لوگ تھے جنہوں نے اس پرکام کیا‘روئیداد خان کو احتساب کا مینڈیٹ دیاگیا۔رفیع رضااور جلال زیدی بھی اس میں شریک تھے۔دیگرافراد جن پر اس سیاسی سیل کو چلانے کا الزام ہے سے متعلق سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایامیں
بریگیڈیئر(ر) امان اللہ کو جانتا ہوں وہ کوئٹہ ایم آئی میں تھے۔ میں لیفٹیننٹ کرنل(ر) اقبال سعید خان کو بھی جانتا ہوں وہ راولپنڈی جی ایچ کیو میں تھے لیکن میں کرنل(ر) اعجاز کو نہیں جانتا۔ایم آئی ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہنے والے لیفٹیننٹ کرنل(ر) میراکبر علی خان کو بھی جانتا ہوں۔میں بریگیڈیئر(ر) کمال عالم خان کو بھی جانتا ہوں ،جب میں آئی ایس آئی سے جارہاتھاتویہ اس میں تعینات تھے،میں انکے متعلق زیادہ نہیں جانتا۔
میں صدر اسحاق خان سے مہینے میں ایک بار یا دو ماہ میں ایک دفعہ یاحسب ضرورت ملاقات کیاکرتا تھا۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے مزید انکشاف کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعدروٹین کے مطابق وہ جرمنی کے لئے منتخب ہوئے۔یہ ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد کاتذکرہ ہے۔۔عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں انہوں نے بتایا کہ یہ مئی94ءکا عرصہ تھا جب بینظیر کو وزیراعظم بنے تقریباً 6 ماہ ہوئے تھے۔ اپنے بیان حلفی میں جنرل درانی نے
مزید کہا ان معلومات کو خفیہ رکھنے کی سفارش کے بعد میں معزز عدالت سے عاجزانہ گزارش کرتا ہوں کہ میں اس بیان حلفی کے مندرجات پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی بنا پرکھلی عدالت میں تبصرے سے قاصر ہوں۔تاہم میں انکے چیمبر میں یا ان کیمرا سماعت میں سوالوں کے جواب دینے کو تیار ہوں۔ حالات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اپریل1994ءمیں جنرل بیگ کے ایما پر ایک پریس ریلیز جاری کی گئی کہ
مسٹر حبیب اور انکی کمیونٹی نے 140 ملین روپے کا عطیہ دیا اور مسٹر حبیب نے یہ رقم ایک سرکاری ادارے کے اکاﺅنٹ میں جمع کرائی۔ بعد ازاں اخبارات میں یہ خبر آئی کہ جنرل بیگ کے مطابق اس ڈونیشن میں سے60ملین کی رقم 1990ءکے الیکشن سے قبل پولیٹیکل انٹیلی جنس کیلئے استعمال کی گئی اور باقی رقم ایک خصوصی فنڈ میں رکھ دی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت میں آئی ایس آئی کا سربراہ تھا اور جنرل بیگ
نے مجھے تصدیق کی کہ یہ بیانات دئیے گئے تھے‘مئی1994ءمیں نے جرمنی میں بطور سفیر ذمہ داریاں سنبھالیں۔جون1994ءکے اوائل میں میجر جنرل(ر) نصیر اللہ خان بابرنے مجھ سے رابطہ کیاجو اس وقت وزیر داخلہ تھے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ جنرل بیگ کے بیان کے حقائق جاننے کیلئے ایک کمیشن یا انکوائری قائم کی گئی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے اس حوالے سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید سے
بھی تبادلہ خیال کیاجنہوں نے جج ایڈووکیٹ جنرل (JAG) سے مشاورت کے بعد فوج کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ جنرل بابر نے کہا کہ ایف آئی اے کا ایک ڈائریکٹر میرا بیان لینے روانہ ہوا۔ خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے مزید انکشاف کیا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمان ملک نے 6جون 1994ءکوبون میں مجھ سے رابطہ کیااورڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے خط پیش کیاجس میں مجھ سے ضروری تفصیلات پوچھی گئی تھیں۔
میں نے جنرل بابرسے بات کی اورانہیں آگاہ کیاکہ اس کیس کے حوالے سے کچھ حساس باتیں تھیں۔ انہوں نے تجویزدی کہ میں وزیراعظم بینظیربھٹوکوخفیہ طورپر بیان دوں۔ میں نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے وزیراعظم کو اپنے ہاتھ سے خفیہ خط میں معلومات فراہم کیں۔ میں نے اپنے تئیس حساس نوعیت کی معلومات کی بھی نشاندہی کی اور ان کو اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی درخواست کی۔مسٹر ملک کچھ ہفتے بعد پھر جرمنی آئے ،
،میرا بیان ایک عدالتی دستاویز پر ٹائپ کیا گیا اور کمیشن کی جانب سے مجھ سے اس پر کارروائی کے لئے دستخط کیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس نے چیف ایگزیکٹو سے منظوری لی ہے اوریہ معاملہ خفیہ طور پر نمٹایا جائے گا۔ میں نے تیار شدہ بیان پر دستخط کئے جو مجھ مسٹر ملک کی جانب سے دیا گیا تھا۔جنرل درانی نے اپنے بیان میں مزید انکشاف کیا کہ تقریباًاگلے2سال تک میں نے اس متعلق کوئی بات نہیں سنی یہاں تک کہ اخبارات میں خبر آئی
کہ جنرل بابر نے قومی اسمبلی میں ایک بیان میں ایک بیان حلفی کا حوالہ دیا جو اان کے مطابق میری جانب سے دیا گیا۔اس بیان پرمسٹر ملک نے خصوصی حالات کے تحت مجھ سےدستخط لئے تھے اور مجھے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ یہ معاملہ خفیہ رکھاجائیگا۔ جنرل درانی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں مزیدکہامجھے نہیں پتہ کہ کن حالات کے تحت اس وقت کے وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں بیان دیا۔ میں انکی منشاءسے آگاہ نہیں جووہ خودہی جانتے ہیں۔اس بیان حلفی پر مجھ سے اس مفاہمت کے تحت دستخط لئے گئے تھے کہ اسے صرف مخصوص مقصد کے لئے استعمال کیا جائیگا۔ میں جرمنی جارہا ہوں اس لئے ذاتی طور پر کارروائی میں شریک نہیں ہوسکتا۔