خواتین وحضرات ۔۔ آپ نے اردو کا وہ محاورہ (سنا) ہو گا جس میں مدعی سست اور گواہ (چست) ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو عدالت میں دعویٰ لے کرگیا وہ گھر میں آرام سے لیٹا ہے جبکہ دعوے دار کا گواہ ہر پیشی پر عدالت پہنچ جاتا ہے‘ ملک کی موجودہ صورتحال میں ۔۔اس محاورے کو بدل دینا چاہیے‘ یہ محاورہ اب مدعی ضدی اور وکیل چست ہو جانا چاہیے‘ آپ پچھلے دو دن سے حکومتی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں‘ میاں نواز شریف بار بار کہتے ہیں میں اپنے انٹرویو پر قائم ہوں‘
میں نے یہ بیان ہوش و حواس میں دیا تھا اور ۔۔اس میں کیا غلط ہے لیکن آپ ۔۔ان کے وکیل میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی (چستی) ملاحظہ کیجئے‘ یہ کہتے ہیں نہیں‘ نہیں‘ میاں نواز شریف کا بیان مس کوٹ کیا جا رہا ہے کیا آپ کو ان بیانات میں مدعی ضدی اور وکیل چست نظر نہیں آ رہا‘ آپ میاں نواز شریف کی ضد ملاحظہ کیجئے‘ انہوں نے آج عدالت کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے کل کے (اس) اعلامیے کو بھی مسترد کر دیا جو ۔۔ان کی اپنی حکومت نے جاری کیا تھا اور کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں ہوا تھا ، میاں نواز شریف نے آج ڈان لیکس کو بھی (درست) قرار دے دیا،جبکہ مریم نواز نے پرویز رشید کی وزارت سے برطرفی کو بھی غلط قرار دے دیا ، مجھے ۔۔اس کرائسس میں شاہد خاقان عباسی مظلوم دکھائی دے رہے ہیں‘ یہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں وزیراعظم بن جاتے ہیں اور پارلیمنٹ اور میڈیا ٹاک میں میاں نواز شریف کے ترجمان تاہم پارٹی ۔۔اس ایشو پر میاں نواز شریف کا ساتھ نہیں دے رہی‘ یہ ایشو کہاں تک جائے گا‘ کیا نتیجہ نکلے گا‘ میاں نواز شریف حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بھی ریاستی موقف کے برعکس خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں‘ اگر یہ یہ بھی کر گزرتے ہیں تو کیا ملک یہ (بحران) برداشت کر لے گا اور کیا ۔۔ان تمام ایشوز کو سیٹل کرنے کیلئے واقعی ایک ٹروتھ اینڈ ری کنسی لی ایشن کمیشن کی ضرورت ہے‘ یہ تمام نقطے ہمارے آج کے پروگرام کا حصہ ہوں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔