اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ (ن) نے جب حکومت سنبھالی تو اس کی پہلی ترجیح ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا تھا لیکن اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہونے جا رہی ہے اور اس وقت معیشت کے حوالے سے ن لیگ کچھ بھی نہیں کر رہی اور اسی وجہ سے مالیاتی خسارے بڑھ رہے ہیں، بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستانی کرنسی کی قدر گھٹ رہی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں،
اب تو عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت مالیاتی ادارے پاکستان کے بڑھتے ہوئے خسارے اور ادائیگیوں میں عدم توازن پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت اس مقام پر پہنچی ہے کہ اسے سنبھلتے سنبھلتے بھی وقت لگے گا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسحاق ڈار نے روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا تھا۔ گو اب ڈالر پانچ فیصد بڑھ کر 115 روپے کا ہو گیا ہے لیکن 2013ء میں جب ن لیگ حکومت میں آئی تو ڈالر 108 روپے کا تھا۔ اسحاق ڈار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو نیچے لائیں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں امریکی ڈالر 98 روپے کا ہو گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کرنسی کی قدر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ درآمدت بڑھتی گئیں اور پاکستان میں بننے والی اشیا مہنگی ہونے کی وجہ سے برآمدات کم ہوتی گئیں۔ روپے کی قدر میں مصنوعی استحکام سے ملک میں مہنگائی ہوئی اور اسی وجہ سے سٹیٹ بینک نے شرح سود کو بھی کم کیا۔ اسحاق ڈار کی جانب سے احمقانہ ٹیکسوں کا اطلاق بھی معیشت کی بدحالی کا باعث بنا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ انھوں نے اپنے پہلے رئیل سٹیٹ سمیت کچھ نئے سیکڑز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش تو کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
اخراجات پورے کرنے کے لیے آمدن تو چاہیے تھی اس لیے اسحاق ڈار نے بھی ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے پہلے سے عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر ہی ٹیکس آمدن کو بڑھایا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے سیلز ٹیکس کی شرح بڑھائی، گیس پر اضافی ٹیکس عائد کیا، کسٹم ڈیوٹی کی شرح بڑھائی اور ایڈوانس ٹیکس کے علاوہ کئی چیزوں پر ودہولڈنگ ٹیکس بھی عائد کیا۔ ان تمام اقدامات سے حکومت کی آمدن میں تو اضافہ ہو لیکن پیداواری شعبے کی کاروباری لاگت بڑھنے سے انہیں نقصان ہوا اور اس کے نتیجے میں ادائیگیوں میں عدم توازن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
درآمدت اور اخراجات بڑھنے، برآمدات اور آمدن کم ہونے کے سبب بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کیا گیا۔ حکومت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں مختلف بانڈز جاری کیے، عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں سے قرض لیا۔سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق 2013ء میں پاکستان کا مجموعی قرض ساڑھے 14 ٹریلین روپے تھا جو دسمبر 2017 میں ساڑھے 21 ٹریلین روپے ہو گیا۔ ان چار سالوں میں قرضوں میں سات ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا اس کے علاوہ ان چار سالوں میں 40 ارب ڈالر مالیت کے بین الاقوامی نئے قرضے لیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جی ڈی پی میں ملکی و غیر ملکی قرضوں کی شرح 74 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں، اس بارے میں ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے کسی قسم کی اصلاحات نہیں کیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسحاق ڈار کا شمار نواز شریف کے قریبی رفقا میں ہوتا ہے اور وہ معیشت کے علاوہ دیگر سرکاری اُمور نمٹانے میں بھی مصروف رہتے تھے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق اسحاق ڈار کسی کا مشورے لیے بغیر معیشت کے معاملات کو خود ہی چلاتے تھے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت کے چند ماہ باقی ہیں لیکن پاکستانی معیشت انتہائی مشکل حالات میں ہے۔