لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے قصور جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان مدثر کی ہلاکت کے کیس میں عدالتوں کو ضمانتوں پر رہائی پانے والے تمام ملزمان پولیس افسران کی ضمانتوں کی منسوخی کیلئے دائر درخواستیں دو روز میں نمٹانے کا حکم دیدیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ دیانت دارپولیس افسروں کو پریشرائز کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،حکومت نے اچھا کیاکہ ابو بکر خدا بخش کو خود ہی جے آئی ٹی کے سربراہ کے طور پر بحال کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا ء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں قصور جعلی پولیس مقابلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ سماعت کے دوران پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید احتشام قادر ،ایڈیشنل آئی جی امجد جاوید سلیمی، ایڈیشنل آئی جی ابوبکر بخش خدا بخش سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے ۔دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اس واقعہ میں کس نے کیا کیا آرڈردیااورآئی جی پنجاب کہاں ہیں؟جس پر ایڈیشنل آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب چھٹی پرہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں علم تھا کہ آج آئی جی پنجاب چھٹی پر ہوں گے ۔ایڈیشنل آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب کے بیٹے کی شادی ہے اس لئے وہ چھٹی پر ہیں۔ فاضل عدالت نے ایڈیشنل آئی جی ابو بکر خدا بخش کو عہدے سے تبدیل کرنے کا علم ہونے پر استفسار کیا کہ قصور کی جے آئی ٹی سے خدابخش کو کس نے ہٹایا؟، جس پرایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ وزیراعلی کے احکامات پرابو بکر خدابخش کوعلیحدہ کیاگیا ۔چیف جسٹس نے ابو بکر خدا بخش کو دوبارہ عہدہ پر بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیشن جج قصور سے پولیس مقابلے میں مدثر کی ہلاکت کے کیس کی رپورٹ اور اس کیس میں ضمانت پررہا کئے گئے ملزمان پولیس افسران کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بو بکر خدا بخش درست انداز میں کام کر رہے ہیں،
دیانت دارپولیس افسروں کو پریشرائز کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔دوبارہ سماعت کا آغاز ہونے پر عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی اورعدالتی حکم پر ضمانتوں پر رہا کئے گئے ملزمان پولیس افسران پیش ہوئے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے معطل انسپکٹر طارق بشیر چیمہ کی بڑی توند دیکھ کر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ آپ تو معیار پر پورا نہیں اترتے ایس ایچ او کیسے بھرتی ہوگئے ۔ ایڈیشنل آئی جی سے استفسار کیا کہ کیا پولیس کی فٹنس کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے معطل انسپکٹر طارق چیمہ کو بیجا بولنے پر جھاڑ پلا تے ہوئے کہاکہ تم تھانے میں نہیں کھڑے،
جب کہوں تب بولنا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق ڈی پی او قصور کے پیش نہ ہونے پر کہا کہ اس نے ضمانت کرائی ہے یا نہیں؟، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ سابق ڈی پی او نے ابھی تک کسی عدالت سے ضمانت نہیں کرائی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریاست نے بغیر ثبوت کے ایک بچہ مار دیا،کان کھول کر سن لیا جائے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ مقدمے میں اسے ظالمانہ طریقے سے قتل کرنے کی دفعات شامل کر لی گئی ہیں۔دفعہ 311کے تحت ملزمان کسی صورت بھی راضی نامہ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن ججز قصور نے ملزمان کی ضمانتیں منظور کی ہیں جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ قصور نے ملزمان پولیس اہلکاروں کے خلاف پولیس کے 7 گواہوں کے بیانات قلمبندکرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے جس کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئی دفعات شامل ہونے کے بعد یہ مقدمہ قابل راضی نامہ نہیں رہا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ضمانتیں منظور کرنے والے ججز کے نام بتائے جائیں۔چیف جسٹس نے متعلقہ عدالتوں کومدثر قتل کیس سے متعلق زیرالتوا مقدمات دو رو ز میں نمٹانے کا حکم دیدیا جبکہ لاہور ہائیکورٹ کو بھی پیر کے روزتک درخواست نمٹانے کی ہدایت کی ۔
سماعت کے دوران فاضل عدالت نے ایڈیشنل آئی جی ابو بکر خدا بخش سے استفسار کیا کہ آپ نے قصور میں کیا انوسٹی گیشن کی جس پر انہوں نے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ابوبکر خدا بخش نے کہا کہ مدثر کے قتل میں اعلی پولیس افسران کی مرضی شامل تھی۔عدالت نے ڈی آئی جی سہیل سکھیرا کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے پر اپنی ناگواری کا اظہار کیاجس پر ابوبکر خدا بخش نے کہا کہ وہ درست انداز میں بطور ممبر کام کریں گے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ اگر آپ انہیں شامل کرنا چاہتے تو تمام تر ذمہ داری بھی آپ کی ہو گی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پراسیکیوٹر جنرل اور جے آئی ٹی کے سربراہ کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کر دی۔