اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک موقر قومی روزنامے میں چھپنے والے اپنے کالم میں سینئر صحافی و کالم نگار ہارون رشید نے کہا کہ بھٹو کے خلاف برپا تحریک کو نظام مصطفی کا نام دیا گیا۔ فرض کر لیجئے کہ مذہبی جماعتیں مخلص تھیں۔ کیا ایئر مارشل اصغر خان اور عبدالولی خان بھی شرعی قوانین کے آرزومند تھے۔ شاید ہی کوئی حکمران ہو‘ جنرل محمد ضیاء الحق سے زیادہ جس کی کردار کشی کی گئی ہو‘ آج تک جس کا سلسلہ جاری ہے۔
اس ”سازشی‘‘ اس ”نوسرباز امریکی ایجنٹ‘‘ سے نجات مل گئی تو جمہوریت کا کبھی نہ غروب ہونے والا سورج طلوع ہو گا۔ اس جمہوریت کا سب سے بڑا تحفہ آصف علی زرداری تھا‘ 1987ء میں جس نے دخترِ مشرق سے بیاہ رچا لیا تھا۔ Mr 10 Percent کہلانے والا آدمی بھٹو کا وارث ہے۔ وردی والوں کے سائے میں میاں محمد نواز شریف جنرل محمد ضیاء الحق کے جانشین۔جنرل کے بارے میں‘ ہرگز اس ناچیز کی وہ رائے نہیں‘ چیخ چیخ کر دانشور‘ جس کا اظہار کرتے ہیں‘ ذاتی زندگی میں بے حد اجلا‘ عبادت گزار اور ہڈیوں کے گودے تک محب وطن آدمی تھا۔ حب وطن کا تقاضا مگر یہ نہ تھا کہ ملک کی پیٹھ پر مولویوں کو لاد کر چلا جاتا۔جنرل محمد ضیاء الحق‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور… جنرل پرویز مشرف‘ ہر بار قوم کو بتایا گیا کہ قبضہ گیر حکمران سے نجات مل گئی تو امکانات کے دریا جھوم کے اٹھیں گے۔ سیاست اور صحافت کے اس معمولی طالب علم کو رتی برابر بھی اس میں شبہ نہیں کہ شریف خاندان کی تاریخ کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ مافیا کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ اس کے بعد مگر کیا ہو گا؟ مایوسی کی بات نہیں، رفتہ رفتہ، بتدریج ملک نے دہشت گردی سے نجات پا لی ہے۔ دس سال پہلے‘ ہر ہفتے تین سے پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے۔ کراچی میں را کے ایجنٹ الطاف حسین کا راج تھا۔ دس سال پہلے‘ بلوچستان کے کئی شہروں میں پاکستانی جھنڈا لہرایا نہ جا سکتا۔ سوات کے خونی چوک میں طالبان جسے چاہتے ذبح کرتے یا پھانسی پر لٹکا دیتے۔
صرف مینگورہ میں 200 لڑکیاں اغوا کرکے بیاہ دی گئیں۔ پاک فوج نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ چھ ہزار بانکے جوان قربان ہو گئے۔ اپنے لہو سے انہوں نے کبھی نہ ختم ہونے والی کہانیاں لکھ دی ہیں۔ ملک انہوں نے بچا لیا ہے۔ اس کے باوجود بچا لیا ہے کہ امریکہ تخریب میں ملوث تھا۔ پاکستانی سیاست اور صحافت میں سی آئی اے کے اثرات گہرے ہیں۔ این جی اوز کے لشکر سوا ہیں‘ جو اپنے وطن کے خلاف ہر طرح کی کاوشوں میں خوش دلی سے شریک ہوتے ہیں‘ راتب پہ رضا مند۔ ایک راؤ انوار کا کیا رونا‘ ایک عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کا کیا ذکر۔ الیکشن ضرور ہو جائیں گے‘ نام نہاد جمہوریت بھی آن براجے گی۔
شریف خاندان سے نجات بھی مل جائے گی یا شاید شہباز شریف ایک ادنیٰ کردار پہ اکتفا کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی استحکام نصیب ہو سکے گا‘ جس کے بغیر قومیں خوش حال ہوتی ہیں نہ آزاد۔بالکل نہیں، منفی ہتھکنڈوں سے قائم کردہ استحکام چند ماہ سے زیادہ قائم نہ رہے گا۔ پھر وہی دھینگا مشتی‘ پھر وہی جوتم پیزار۔قانون کی حکمرانی‘ اللہ کے بندو‘ قانون کی حکمرانی کے بغیر‘ کبھی کوئی معاشرہ ثمربار نہیں ہو سکا۔ بے بسی اور بے چارگی سے نجات نہیں پا سکا۔ سول ادارے‘ جنابِ والا سول ادارے۔ انصاف عطا کرنے والی عدالت‘ پولیس اور افسر شاہی‘ قانون کے دائرے میں مکمل طور پہ آزاد‘ ورنہ وہی جوہڑ۔جہاں جوہڑ ہو گا‘ مینڈک اور کچھوے بھی ہوں گے۔ جہاں جنگل ہو گا، وہاں کیا جانور نہ ہوں گے؟ درندے نہ ہوں گے؟