لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایوان صدر نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی معطلی کی درخواست پر پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، ایوان صدر نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے سے انکارکرتے ہوئے اس سلسلے میں شہداء فاؤنڈیشن کے سابق مرکزی ترجمان حافظ احتشام احمد کی طرف سے دائر درخواست نمٹا دی ہے۔
واضح رہے کہ شہداء فاؤنڈیشن کے سابق مرکزی ترجمان حافظ احتشام احمد کی طرف سے صدر مملکت کو بھیجی گئی درخواست میں چیف جسٹس پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس کے اقدامات سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔ اس درخواست میں چیف جسٹس کو آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی مکمل ہونے تک معطل کرنے کی استدعا بھی کی گئی تھی۔ درخواست میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں ملوث کیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے انتظامی معاملات میں مداخلت کرکے حکومتی مشینری کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، اس کے علاوہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کرواکے انتظامی معاملات میں بھی مداخلت کی۔ پولیس مقابلوں کے خلاف درخواست گزار کی جانب سے دائر کی گئی آئینی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کی طرف سے دائر کی جانے والی آئینی پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کرلیا، درخواست میں موقف اختیار کیاگیا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پسند و ناپسند کی بنیاد پر ازخود نوٹس لیتے ہیں، کہا گیا کہ اس طرح کے تمام اقدامات مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر درخواست گزار کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو وہ آئینی طور پر براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
درخواست گزار سے کہا گیا کہ براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے اور اس پر کارروائی ہونے کی نظائر موجود ہیں، اس کے علاوہ صدر کسی درخواست پر از خود ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیج سکتے۔ اس بارے میں صدر مملکت وزیراعظم کی رائے کے پابند ہیں جبکہ وزیراعظم کی جانب سے ایسی کوئی ایڈوائس ایوان صدر کو نہیں ملی ہے۔ واضح رہے کہ افتخار محمد چودھری کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں سپریم جوڈیشل کونسل میں معاملہ بھیجے جانے کے بعد کسی جج کو معطل بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔