اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) راولپنڈی کی جامع اسلامیہ کے مفتی عبدالرحمن نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کا اکٹھے رہنا حرام قرار دیدیا۔ساتھ ہی کہا کہ عمران خان،بشری بی بی،نکاح خواں جب کہ تمام گواہان پر توبہ کرنا بھی ضروری ہے۔دریں اثنا ا س معاملے سے متعلق نجی ٹی نے ایک رپورٹ بھی نشر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کےارکان سمیت چاروں مسالک کے علما ئے کرام نے کہا ہے کہ دوران عدت نکاح نہیں
کیا جا سکتااور یہ شریعت کے سخت خلاف ہے۔مذہبی سکالر راغب نعیمی نے کہا ہے کہ عدت میں نکاح حرام ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہے۔اگر نکاح کرنے والا کسی بڑے عہدے پر فائز ہے تو اس کو یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہئیےاور اگر وہ یہ بڑا عہدہ نہ چھوڑے تو عہدہ شریعت کی روشنی میں چھڑوایا جا سکتا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پہلے وہ توبہ کرے پھر نکاح کر سکتا ہے۔واضح رہے کہ مسلم فیملی لاز میں عدت کے دوران نکاح کو جرم قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی اسے غیر قانونی قرار دے کر اس کیلئے کوئی سزا مقرر ہے تاہم اسے بے قاعدہ یا بے ضابطہ کہا جاسکتا ہے،روزنامہ جنگ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ علماءکا اپنا موقف ہے تاہم عدت کے دوران نکاح حرام نہیں ہے بلکہ یہ بے قاعدہ ہے اور ایسی صورت میں جب عدت کی مدت ختم ہو جائے گی تو یہ نکاح از خود ریگولر ہو جائے گا۔فوجداری قانون کے ماہرآفتاب احمد باجوہ نے کہا کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت چیئرمین ثالثی کونسل طلاق موثر ہونے کا سرٹیفیکٹ جاری کریگی جو طلاق ہونے کے 90دن کے بعد جاری کیا جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ خاتون کو طلاق موثر ہو گئی
ہے اور اب وہ جہاں مرضی چاہے نکاح کر سکتی ہے، 90دن کی مدت اس لئے رکھی گئی تاکہ اگر خاتون حاملہ ہو تو پتہ چل جائے ۔آج کے جدید دور اور ٹیکنالوجی چند ہفتوں کے حمل اور دنوں کے حمل کو بھی ظاہر کر سکتی ہے اگر عورت حاملہ نہیں تو وہ نکاح کر سکتی ہے تاہم ایسا نکاح بےقاعدہ ہو گا غیرقانونی نہیں، پاکستان کے قوانین عدت کے دوران نکاح کے معاملہ پر خاموش ہیں اس لئے ایسے نکاح کو غیرقانونی یا قابل سزا نہیں کہا جاسکتا.سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمن نے کہا کہ عائلی قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت عدت کے دوران نکاح کو جرم قرار دیا گیاہو اس لئے ایسا نکاح غیرقانونی تونہیں البتہ یہ بے قاعدہ ہو سکتا ہے اور رائج قوانین میں اس کے لئے کی سزا کا تعین نہیں ۔