دنیا میں ایک بہت مضبوط تنظیم ہے‘ ایف اے ٹی ایف یعنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ دنیا کے 37طاقتور ملک ۔۔ اس تنظیم کا حصہ ہیں‘ تنظیم کی ایک واچ لسٹ ہے‘ اس واچ لسٹ پر ان ممالک کے نام چڑھا ئے جاتے ہیں جن پر دہشت گردوں کو مالی مدد دینے کا یقین ہوتا ہے‘ امریکا پاکستان کا نام، اس واچ لسٹ پر چڑھانا چاہتا ہے‘ اس نے فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کو رضا مند کر لیا ہے‘
انڈیا ویسے ہی پاکستان کا مخالف ہے‘ تنظیم کی میٹنگ 18 سے23 فروری کو پیرس میں ہو گی‘ اگر امریکا پاکستان کا نام واچ لسٹ میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کو ٹھیک ٹھاک معاشی دھچکا بھی پہنچے گا اور پاکستان کو سفارتی محاذوں پر بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ یہ سلسلہ ڈیفالٹ تک بھی جا سکتا ہے لیکن حکومت اس خطرے سے نمٹنے کی بجائے کچھ ایسے اقدامات میں مصروف ہے جن کی نشاندہی عمران خان نے آج کی، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ میاں نواز شریف واقعی این آر او کیلئے عدلیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاہم یہ بات درست ہے لودھراں میں جیت کے بعد میاں نواز شریف نے عدلیہ پر کھلے حملے شروع کر دیئے ہیں، میرا خیال ہے میاں نواز شریف یہ سمجھ رہے ہیں عوام۔ ان کا بیانیہ مان چکے ہیں اور یہ جب بھی کال دیں گے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘ دوسری طرف چیف جسٹس نے آج ایک بار پھر میاں نواز شریف کے وکیل سے پوچھا کیا کوئی شخص جیل سے پارٹی چلا سکتا ہے‘ وکیل نے نیلسن مینڈیلا کی مثال دی تو چیف جسٹس نے جواب دیا وہ ڈاکو نہیں تھے‘ اللہ نہ کرے کوئی چور اُچکا پارٹی کا صدر بنے‘ چیف جسٹس کے ان ریمارکس کو کس طرح لیا جانا چاہیے اور کیا میاں نواز شریف خود کو کرپٹ کی بجائے مظلوم ثابت کر چکے ہیں اور یہ جو کرنا ہے کر لو کی سٹیج پر چلے گئے ہیں‘ ہم آج کے پروگرام میں ان دونوں نقطوں پر بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔