اسلام آباد ،کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک ،سی سی پی)پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور انکی اہلیہ کے المناک واقعے نے ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ان کے بیٹے ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے والد نے خود کشی کی ہے ۔انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کیس کی غیر جانبدارانہ اور کڑی تحقیقات کراتے ہوئے اس واقعےکے ہر پہلو کو باریک بینی سے دیکھا جائے۔ تاہم میر ہزار خان بجارانی کی
موت سے قبل پیش آئے ایک واقعے نے ایک نئی ہی صورتحال پیدا کر دی ہے۔نامور ادیب پروفیسر انوار احمد نے لکھا ہے” کسی کی بھی وفات افسوس ناک ہے مگر انہی کی صدارت میں ایک جرگہ ہوا تھا جس میں “کاری”قرار دی جانے والی لڑکی کو ٹریکٹر ٹرالی کے پھل سےٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا۔ میر ہزار خان بجارانی اس بہیمانہ فیصلے میں شامل تھے یا نہیں، ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسے معاملات کبھی رجسٹر نہیں ہوتے۔ ہمارا مقصد دنیا سے اٹھ جانے والے پر کیچڑ اچھالنا بھی نہیں ہے بس اتنا سوچنا ہے کہ فیوڈل ولایت سے تعلیم پانے کے بعد بھی فیوڈل کیوں رہتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا سوال کیا جانا ہی حماقت ہے۔ ولایت میں تعلیم حاصل کرنا کوئی ماہیت قلبی کا عمل نہیں ہوتا۔ پھر چند سال جمہوری معاشروں میں رہ کر آپ جمہوریت سے وابستہ اپنے مفادات ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے مفادات سے صرف نظر کیا جانا آسان ہوتا ہے۔دریں اثناسندھ کے صوبائی وزیر اور بلوچ سردار میر ہزار خان بجارانی اور اہلیہ کی المناک موت کے حوالے سے پولیس نے تفتیش مکمل کرلی ہے۔ اس طرح کے واقعات کا مقدمہ درج نہیں کیا جاتا بلکہ دفعہ 174 کے تحت کی گئی کارروائی منظوری کے لیے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کی جائے گی۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساوتھ
فاروق اعوان نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ یکم فروری کے واقعہ کی اطلاع حکومتی عہدیداروں کے ذریعے پولیس کو ملی۔ جس پر پولیس حرکت میں آئی اور فوری طور پر جائے وقوعہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے انتہائی باریک بینی سے عین بین الاقوامی معیار کے مطابق تفتیش شروع کی۔ جائے وقوعہ سے فنگر پرنٹس لئے گئے۔ ملنے والی مشکوک اشیا، اسلحہ، گولیوں اور خالی خولز کا فرانزک ٹیسٹ کیا گیا۔ موقع کی مختلف
زاویوں سے تصاویر حاصل کی گئیں۔ لاشوں کے پوسٹ مارٹم اور دیگر شواہد سے 20 گھنٹے بعد موت کی حتمی وجہ کا اعلان کیا گیا۔پولیس کے مطابق بنگلے میں سیکورٹی ڈیوٹی دینے والے دو سرکاری اہلکاروں کانسٹیبل محمد یونس اور عرفان یوسف، ڈرائیور پرویز احمد، خانسامہ سید صلاح الدین اور گھریلو ملازم میاں بیوی غلام عباس اور شازیہ کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ایس ایس پی فاروق اعوان کے مطابق مقتولہ فریحہ رزاق کی ملکیت بنگلے
میں لگے 8 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے 2 بند تھے جبکہ دیگر 6 کیمروں کی ریکارڈنگ کا معائنہ کیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں فائرنگ کا امپیکٹ ظاہر نہیں ہوا تاہم سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملازمین کے پولیس کو دیئے گئے بیانات کی تصدیق ہوئی ہے۔پولیس کے مطابق فوٹیج میں ملازمین کی حرکات و سکنات سے واقعہ صبح 7 بجے پیش آنے کا ثبوت ملا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کانسٹیبل یونس کی رات 8 بجے سے صبح 10 بجے تک
ڈیوٹی تھی جبکہ دوسرا پولیس گارڈ عرفان یوسف صبح 10بجے ڈیوٹی پر آیا۔پولیس کے مطابق فائرنگ کے بعد یونس ہڑبڑا کر کوارٹر سے نکلا، ادھر ادھر دیکھا پھر بنگلے کے عقب میں گیا لیکن فائرنگ کے مقام کا تعین نہ کرسکا۔ یونس کے بیان کے مطابق ملازمین نے کہا کہ یہاں ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس پر وہ بھی خاموش ہوگیا اور کسی کو اطلاع نہیں دی۔ ملازمین کے بیانات کے مطابق چونکہ ملازمین کو بنگلے کے اندر جانے یا انٹرکام کرنے
کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے کسی کی مزید تحقیق کی ہمت نہ ہوئی۔ایک ملازم کے بیان کے مطابق میر ہزار خان بیدار ہوکر صبح 7 بجے اخبار لینے خود باہر آتے تھے۔ جمعرات کی صبح 7 بجے نہ آئے تو ملازمین نے خود ہی سوچ لیا کہ کہ رات بھر لڑائی ہوتی رہی مالکان سوگئے ہوں گے اس لئے کسی نے کسی سنگینی کے بارے میں مزید سوچا بھی نہیں۔ ڈرائیور پرویز احمد کے بیان کے مطابق میڈم فریحہ نے 11 بجے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا، جس کے لیے
اس نے گاڑی تیار کرلی تھی لیکن جب میڈم 11 بجے تک باہر نہ آئیں تو اسے تشویش ہوئی اور انہوں نے دیگر اہلخانہ کو فون کئے۔ جن کے پہنچنے کے بعد گھر کے اندر سے بند دروازے توڑنے پر سنگین صورتحال کا علم ہوا۔پولیس حکام کے مطابق کسی کو قتل کرکے خودکشی کرنے کے اس نوعیت کے لاتعداد واقعات ہوچکے ہیں۔ ایسے واقعات کے مقدمات درج نہیں کیے جاتے، ملزم کے زندہ بچنے کی صورت میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن فاروق اعوان کے مطابق اس واقعہ کی کارروائی دفعہ 174کے تحت کی جا رہی ہے، جونہی فائل مکمل ہوگی مجسٹریٹ سے منظوری حاصل کرلی جائے گی۔ایک اور تفتیشی افسر کے مطابق میر ہزارخان بجارانی نے اپنی اہلیہ کے قتل جیسا سنگین اقدام کیوں کیا؟ اور پھر خود بھی موت کو کیوں گلے لگا لیا؟ اس کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں۔پولیس نے ان سوالات کے جوابات ملازمین اور سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں
کے بیانات سے بھی لینے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ میاں بیوی کے انتہائی قریب رہنے والے ملازمین نے بھی اس بارے میں کوئی انکشاف نہیں کیا۔ملازمین کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں لڑائی انگریزی میں ہوتی تھی، جس کی انہیں سمجھ نہیں آتی تھی۔پولیس ذرائع کے مطابق میر ہزارخان نے جس 30 بور پستول سے گولیاں چلائیں وہ ان کا ذاتی اور لائسنس یافتہ ہے۔ پولیس کے مطابق اس کا لائسنس ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا۔