لندن/کابل(مانیٹرنگ ڈیسک) برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک تحقیق میں کہاگیا ہے کہ طالبان افغانستان کے 70فیصد علاقے کے لیے خطرہ ہیں اورطالبان کا اثرورسوخ افغان اضلاع پر بڑھتا جارہاہے،ادھرافغان حکومت نے اس رپورٹ کو کم اہمیت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ زیادہ تر علاقے پر اس کا کنٹرول ہے تاہم حالیہ کچھ عرصے میں کابل اور دیگر علاقوں میں ہونے والے حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ان حملوں کی ذمہ داری طالبان اور دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں نے قبول کی ہے۔
برطانوی ٹی وی کی تحقیق کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج نے جن طالبان کو شکست دینے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے وہ اب ملک کے 70 فیصد علاقوں میں کھلے عام سرگرم ہیں۔ملک کے طول و عرض میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کیسے 2014 میں افغانستان سے غیرملکی فوج کے انخلا کے بعد علاقوں پر طالبان کا اثرونفوذ بڑھا یا ان علاقوں کو ان سے خطرہ لاحق ہوا۔یہ تحقیق سنہ 2017 کے اواخر میں کی گئی جس سے افغانستان کے ہر ضلع میں 23 اگست سے 21 نومبر تک سکیورٹی کی صورتحال واضح ہوتی ہے۔تحقیق کے دوران ملک کے 399 اضلاع میں 1200 مقامی افراد سے بات کی تاکہ اس عرصے کے دوران شدت پسندوں کے حملوں کی جامع تصویرکشی کی جا سکے۔ یہ گفتگو بالمشافہ ملاقات میں یا پھر ٹیلیفون پر ہوئی اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات کی کم از کم دو دیگر ذرائع سے بھی تصدیق کروائی گئی۔نتائج بتاتے ہیں کہ افغانستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد جو کہ ملک کی نصف آبادی کے برابر ہیں، ایسے علاقوں میں مقیم ہیں جو یا تو طالبان کے کنٹرول میں ہیں یا وہاں طالبان کھلے عام موجود ہیں اور تواتر سے حملے کر رہے ہیں۔یہ واضح ہے کہ طالبان افغانستان کے جنوبی علاقوں میں اپنے روایتی ٹھکانوں سے نکل کر اب ملک کے مشرقی، مغربی اور شمالی حصوں میں بھی جگہ بنا چکے ہیں۔ 2014 کے بعد جو علاقے طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں،
ان میں صوبہ ہلمند میں سنگین، موسیٰ قلعہ اور نادِ علی بھی شامل ہیں جنھیں ماضی میں غیر ملکی افواج نے شدید لڑائی کے بعد طالبان کے قبضے سے چھڑوایا تھا۔تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بھی افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرگرم ہے لیکن ابھی وہ طالبان جتنی طاقتور نہیں۔غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں جاری لڑائی کے بارے میں درست اور قابلِ اعتبار اعداد و شمار کا حصول آسان نہیں رہا۔تحقیق کے مطابق اس وقت افغانستان کے 14 اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ 263 اضلاع ایسے ہیں جہاں وہ سرگرم ہیں اور کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں۔
یہ تعداد ماضی میں طالبان کی طاقت کے بارے میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔وہ علاقے جہاں طالبان کی کھلے عام موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کی بات کی گئی ہے، وہاں وہ سرکاری عمارتوں پر اکثر حملے کرتے ہیں جن میں فوجی اڈوں پر مربوط حملوں سے لے کر انفرادی حملے سب شامل ہیں۔تحقیق کے دوران جن حملوں کو شمار کیا گیا ان کے اوقات مختلف تھے۔ کچھ علاقوں میں تین ماہ میں ایک حملہ ہوا تو کہیں ہفتے میں دو حملے۔رپورٹ میں جن علاقوں کو حکومت کے زیرِ اثر یا مکمل حکومتی کنٹرول میں بتایا گیا ہے ان میں افغان حکومت کے نمائندے ضلعی سربراہ، پولیس سربراہ اور عدالتی نمائندوں کی شکل میں موجود تھے۔
تحقیق کے دوران 122 اضلاع میں طالبان کی کھلے عام موجودگی کے ثبوت نہیں ملے۔ ان علاقوں کو حکومت کے کنٹرول میں قرار دیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تشدد سے پاک ہیں۔مثلاً اس تحقیق کے دوران کابل اور دیگر اہم شہر ایسے بڑے حملوں کا نشانہ بنے جو ہمسایہ اضلاع سے آنے والے حملہ آوروں (سلیپر سیلز) نے کیے۔بی بی سی کی تحقیق کا افغانستان کے معاملات پر 2009 سے رپورٹنگ کرنے والے افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک نے بھی جائزہ لیا۔نیٹ ورک کی شریک ڈائریکٹر کیٹ کلارک کہتی ہیں کہ ’افغانستان کی جنگ پر اتنی جامع تحقیق کمیاب اور خوش آئند ہے۔ اس کے نتائج سے دھچکا لگا ہے لیکن یہ غیرمتوقع نہیں ہیں۔
یہ اس تنازع کی صحیح نقشہ بندی کرتے ہیں۔تین سال قبل افغانستان سے عالمی افواج کے انخلا کے بعد سے تشدد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق سنہ 2017 کے ابتدائی نو ماہ میں ملک میں ساڑھے ہزار شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان میں سے بیشتر شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے مگر کچھ شہری افغان فوج کی امریکی مدد سے کی جانے والی زمینی اور فضائی جوابی کارروائیوں میں بھی مارے گئے۔اگرچہ ملک کے زیادہ تر علاقوں میں ہونے والا تشدد رپورٹ نہیں ہوتا لیکن بڑے شہروں میں ہونے والے حملے شہ سرخیوں میں جگہ بناتے ہیں۔ اب یہ حملے زیادہ تواتر سے ہو رہے ہیں اور افغان سکیورٹی فورسز بظاہر انھیں روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
تحقیق کے دوران ہی مسلح افراد نے کابل میں شمشاد ٹی وی کے صدر دفتر پر حملہ کیا جس میں عملے کا ایک رکن ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔ اس کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ نے قبول کی۔ اس کے علاوہ قندھار، ہرات اور جلال آباد میں بھی حملے ہوئے۔جنوری کے آخری دس دن میں کابل میں تین بڑے حملے ہوئے جن میں 130 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔ گذشتہ مئی میں کابل میں 2001 کے بعد سب سے مہلک حملہ ہوا تھا۔اس حملے میں 150 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی تھی۔اس بڑھتے ہوئے تشدد نے کابل کے رہائشیوں کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اگرچہ دولتِ اسلامیہ نے یہ دکھایا ہے کہ وہ کابل جیسے بڑے شہروں کو نشانہ بنا سکتی ہے، اس کا اثر مشرقی صوبے ننگرہار میں پاکستان سے ملحق کچھ سرحدی علاقوں میں ہی ہے۔تحقیق کے عرصے کے دوران صوبے کے دارالحکومت جلال آباد میں کم از کم 50 افراد کا قتل کیا گیا۔ ان میں سے بعض کو گولی مار کر قتل کیا گیا جبکہ دیگر کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔ اس کے علاوہ تین افراد کے سر قلم کر دیے گئے جو کہ دولتِ اسلامیہ کی علامت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔تحقیق کے دوران ملک بھر میں طالبان کی جانب سے ٹیکس وصولی کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔ ایسے اضلاع جہاں وہ کھلے عام موجود تھے، وہ کسانوں، مقامی تاجروں اور تجارتی قافلوں سے ٹیکس لے رہے تھے۔
ایک جنوبی ضلع کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ اس بجلی کی قیمت عوام سے لیتے ہیں جو ہم فراہم کر رہے ہیں۔اسی طرح مغربی افغانستان کے ضلع شنداند کے رہائشی سردار نے کہاکہ جب بھی میں گھر سے نکلتا ہوں، یہ یقین نہیں ہوتا کہ زندہ واپسی ہو سکے گی۔ دھماکے، خوف اور طالبان ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں،امرالدین صوبہ بدخشاں کے ضلع بہارک کے رہائشی ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں تحقیق کے مطابق طالبان کی موجودگی درمیانے درجے کی ہے،مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک امرالدین نے کہاکہ ہم مسلسل خوف میں جی رہے ہیں۔ جب حکومت طالبان سے لڑائی شروع کرتی ہے ہم اس میں پھنس جاتے ہیں۔ زندگی تھم سی جاتی ہے۔
آج کل سکون ہے لیکن طالبان یہاں موجود ہیں۔آٹھ بچوں کے والد محمد رضا طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقے سنگین میں رہتے ہیں۔ وہ طالبان کے دور کو ’بہتر‘ سمجھتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اس وقت امن تھا۔وہ کہتے ہیں کہ حالات پرتشدد رخ تبھی اختیار کرتے ہیں جب حکومتی افواج آتی ہیں،صوبہ کابل کے ایک شمالی ضلع کی رہائشی استاد ماہ گل نے کہا کہ لوگوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنا گھربار، کھیت کھلیاں اور باغات چھوڑ دیں اور طالبان کی حکمرانی میں رہیں۔انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان نے اکتوبر میں اپنا گاؤں چھوڑا اور حکومت کے زیرِ اثر علاقے میں واقعے مرکز میں پناہ لی مگر دو دن بعد ان کا بھائی ایک خودکش حملے میں مارا گیا۔
کابل کے مغرب میں رہنے والی جمیلہ پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’گذشتہ ماہ ہی طالبان کے دو راکٹ ہمارے عقبی باغیچے میں گرے۔ ہم ضلعی پولیس کے سربراہ کے دفتر سے چند سو میٹر دور رہتے ہیں۔ یہ محفوظ نہیں ہے۔کاروبار کرنے والے مشرق وال نے بتایا کہ میرے انکل کو ان کے دروازے پر قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے ایک سکیورٹی افسر تھے۔ مجھے جلال آباد کو چھوڑنا پڑا۔ میرا گھر اب بھی وہاں ہے لیکن وہاں رہائش اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ بہت زیادہ خطرہ موجود ہے اور باہر کھلے عام نہیں گھوم سکتے ہیں۔ افراد اور اہلکاروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ اب 30 اضلاع میں موجود ہے جس میں نہ صرف مشرقی علاقے شامل ہیں جبکہ شمال میں خان آباد اور کوہسستان جیسے اضلاع شامل ہیں۔
دولتِ اسلامیہ زمینی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے افغان فوج اور افغان طالبان سے بیک وقت لڑ رہا ہے۔سال 2017 کے دوران دولتِ اسلامیہ سے منسوب حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس میں زیادہ تر میں شہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ اکثر اوقات فرقہ واریت پر مبنی حملوں می شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایسا افغانستان کے 40 سالہ تنازعے میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔تاحال دولتِ اسلامیہ کا کسی ضلع پر مکمل کنٹرول نہیں ہے تاہم گروپ نے شمالی ضلع درزاب کے کئی علاقوں پر قبضہ حاصل کر لیا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ رپورٹ پر صدر اشرف غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضٰوی کا کہنا تھا کہ بعض اضلاع میں شاید اختیار بدلا ہے لیکن اگر 2017-18 پر مکمل نظر ڈالی جائے تو طالبان اور دولتِ اسلامیہ کی سرگرمیاں محدود ہوئی ہیں۔
دیہات میں افغان سکیورٹی فورسرز نے جنگ جیتی ہے۔ اب عسکریت پسندوں کے لیے صوبے، کسی بڑے ضلعے یا ہائی وے پر کنٹرول حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کی نوعیت بدل گئی ہے اب وہ کابل پر حملے کر رہے ہیں، بازاروں اور مسجدوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ رپورٹ شاید ان لوگوں سے کیے گئے انٹرویوز پر مبنی ہے جو محض ایک گھنٹے یا ایک دن کے لیے کسی واقعے کا شکار ہوئے۔ لیکن تمام اضلاع میں ہونے والی سرگرمیوں اور خدمات جو مقامی انتظامیہ پہنچا رہی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان کے زیرِ قبضہ مٹھی بھر علاقوں کے علاوہ یہاں زیادہ تر اضلاع میں حکومت کا اختیار ہے تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے مزید 3000 فوجی اہلکار تعینات کیے جانے پر اتفاق ہونے کے بعد سکیورٹی کی صورتحال بگڑی ہے۔
مزید فوجیوں کی تعیناتی کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 14000 ہو جائے گی۔برطانوی نشریاتی ادارے کی معلومات کی اشاعت پر امریکی فوج نے اس بات کی تردید کی کہ اس نے حکومتی نگراں ادارے کی طالبان کے زیرِ قبضہ افغان علاقوں سے متعلق معلومات منظر عام پر لانے سے روکنے کی کوشش کی۔سپیشل انسپیکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن نامی ادارے نے کہا کہ انھیں اپنے اس اقدام میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔تاہم اس تنازع کے ختم ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے اور آنے والی افغان نسل بھی تشدد کے سائے میں ہی زندگی گزارے گی۔کابل کے ایک قالین فروش پہلوان کے 13 بچے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچوں کو گھر سے باہر محفوظ نہیں سمجھتا اس لیے میں انھیں باہر جانے ہی نہیں دیتا۔ وہ تو جیسے گھر میں نظر بند ہیں۔ میں نے ان کے لیے گودام میں ہی سکول بنایا ہے۔ ان کی دنیا دیواریں اور قالین ہیں۔ اگرچہ ہم کابل میں ہیں لیکن یوں لگتا ہے جیسے میں ان کو جنگل میں بڑا کر رہا ہوں۔