اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپی نہیں قصور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد اس معاملے کی سنگینی کا احساس سب کو ہوا ہے ،اسی سلسلے میں سینئر صحافی ضیاء شاہد بتاتے ہیں کہ چونیاں میں ایک شخص کو لوگوں نے بتایا کہ تمہارے بیٹے کی یو ٹیوب پر فلم چل رہی ہے، لوگوں کی اطلاع پر باپ نے دیکھا تو وہ زیادتی کی فلم تھی۔باپ غصے میں آگیا اور بچے سے پوچھا تو
پتہ چلا کہ ڈیڑھ سال سے اس کے ساتھ یہی سب کچھ ہو رہا ہے اب اس نے انکار کر دیا تو یہ فلم اپ لوڈ کر دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بچوں سے زیادتی کی فلمیں بنتی ہیں اور خریدوفروخت ہوتی ہے جس میں منظم گروہ ملوث ہے جو بااثر بھی ہے۔ ضیا شاہد نے بتایا کہ شک ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے پس پردہ ایک منظم گروہ ہے،شبہ ہے کہ زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کی بھی ویڈیو فلم بنی ہو گی اور ممکن ہے کہ اسے ویب سائٹ پر لائیو دکھایا گیا ہو۔ دوسرا یہ کہ 300 بچوں سے زیادتی کی خبریں آئیں تو میں ذاتی طور پر قصور گیا تو اس وقت صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ اراضی کا معمولی تنازعہ ہے ایسے کوئی واقعات رونما نہیں ہوئے۔انہوں نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ اسی طرح میرے پاس سرگودھا کے ایک بندے کا کیس ہے۔ ایف آئی اے لاہور نے کیس کی تفتیش کی ملزم نے تسلیم کیا کہ اس نے 6 سو بچوں سے زیادتی کی فلمیں بنائی تھیں اور ناروے کی ویب سائٹ کو بیچی تھیں اور فی فلم 300 یورو کمائے۔ضیاشاہد نے کہاکہ میں ایک بار بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں سامنے کے بعد قصور گیا اور ایک مذاکرہ میں تقریر میں کہا کہ قصور کے عوام متحد ہو جائیں اوراس کے خلاف مل کر مہم چلائیں۔ تقریر کے بعد میں گاڑی میں
بیٹھا تو ہمارے نمائندے اور دو اور افراد نے مجھے کہا کہ آپ کے ایک طرف جو ایم پی اے بیٹھا تھا وہی ملزموں کی سفارش کر کے تھانے سے چھڑواتا ہے جبکہ دوسری طرف جو وکلاءکا لیڈر بیٹھا تھا وہی زیادتی کے ملزموں کے کیس لڑتا ہے۔واضح رہے کہ زینب قتل کیس اس وقت سپریم کورٹ میں چل رہا ہے ،شاہد مسعود کے دعوئوں کے بعد اس معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔