قصور (مانیٹرنگ ڈیسک)سات سالہ زینب کے قتل نے قصور ویڈیو سکینڈل کو بھی دوبارہ ہوا دے دی ہے، پورے ملک میں جہاں زینب کا افسوسناک واقعہ زیر بحث ہے تو وہاں قصور میں2015 کے ویڈیو سکینڈل کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں ، قصور میں دو سو چوراسی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا سکینڈل اگست 2015ء میں سامنے آیا۔ ملزمان جہاں بچوں کواپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے،
وہیں انہیں اسلحے کے زور پر ایک دوسرے سے بدفعلی کرنے پر بھی مجبور کرتے رہے۔ ملزمان نے بچوں کی چار سو سے زائد ویڈیوز بنائیں اور پچاس پچاس روپے کے عوض گاؤں حسین خاں والا میں فروخت کیں۔ ایک خاتون نے اپنے چودہ سالہ بیٹے کی ویڈیو ختم کرنے کے لئے بلیک میلرز کو ساٹھ ہزار روپے ادا کیے۔ اس بارے میں قصورکے ایک دیہاتی نے بتایا کہ اس گھناؤنے عمل کے ملزم یہ ویڈیوز بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے تھے؛ تاہم مقامی ایم پی اے کے دباؤ پر پولیس نے پچاس لاکھ روپے لے کر کیس کے مرکزی ملزم کو رہا کر دیا اور مقامی سیاستدان متاثرہ افراد پر کیس واپس لینے کیلئے دبا ؤ ڈالتے رہے۔ان جنسی درندوں نے چھ سے دس سال کے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا، جب یہ سکینڈل سامنے آیا تو اس وقت میڈیا نے بھی بہت شور مچایا لیکن بعد میں پکڑے گئے 17 ملزمان باری باری چھوڑ دیے گئے، اس واقعہ میں زیادتی کا نشانہ بنانے والے بچوں اور ان کے خاندان کی زندگیاں تباہ ہو کر رہ گئیں ملزمان نے انہیں دھمکیاں دیں اور رہا ہونے کے بعد یہ غیر اخلاقی ویڈیوز معاشرے میں پھیلا دیں ، یہاں تک کہ کئی لڑکے اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ان بچوں کے گھر والے ابھی تک ان کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اس واقعہ میں زیادتی کا نشانہ بنانے والے بچوں اور ان کے خاندان کی زندگیاں تباہ ہو کر رہ گئیں ملزمان نے انہیں دھمکیاں دیں اور رہا ہونے کے بعد یہ غیر اخلاقی ویڈیوز معاشرے میں پھیلا دیں