اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار عمار چوہدری نے اپنے کالم میں لکھا کہ اگر آپ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ویب سائٹ پر جائیں تو آپ کو وہاں اس کے قیام کے مقاصد میں سے ایک مقصد جنسی جرائم کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش بھی ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حسین خاں والا کے درجنوں ملزمان کے پکڑے جانے کے بعد کیا ان کا اس طرح ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا جس طرح زینب قتل کیس میں گیارہ سو پچاس لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے؟
زینب کیس میں تو ملزم مفرور اور نامعلوم تھا لیکن بچوں کے کیس میں تو ملزمان پکڑے گئے تھے، پھر ان کے ڈی این ایز کیوں نہیں کرائے گئے؟ شاید اس لئے کہ اس طرح (ن) لیگ کی مقامی سپورٹ اور ووٹ سے آپ محروم ہو جاتے۔ آپ قدرت کا کرنا دیکھئے کہ پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان سنہ71ء میں قصور میں پیدا ہوئے اور مسلم لیگ (ن) کی سیٹ پر قصور کے حلقہ پی پی 179 سے منتخب ہوئے۔ وہ پنجاب حکومت میں اتنا بڑا عہدہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود آج تک قصور میں اڑھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکے یا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ان پر اور دیگر لیگی ایم پی ایز پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ بااثر ملزمان کو چھڑانے اور اس کیس پر ”مٹی پانے‘‘ میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ گزشتہ روز زینب کیس کی پریس کانفرنس میں رانا ثناء اللہ وزیراعلیٰ پنجاب کے بائیں طرف جبکہ ملک احمد خان دائیں طرف بیٹھے تھے۔ یہ سب اس واقعے کا یوں کریڈٹ لے رہے تھے جیسے یہ مقدمہ انتہائی خاموشی سے رات کے اندھیرے میں کسی غریب نے تھانے میں دائر کیا، اور محرر نے انتہائی خاموشی سے وزیراعلیٰ کو خبر پہنچائی، جس کے بعد وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم نے ملزم کی تلاش میں دن رات ایک کر دیا۔ معروف کالم نگار نے مزید لکھاکہ اللہ کے بندو! قوم کو کب تک دھوکہ دو گے؟ قیامت تک زینب قتل کیس کا ملزم نہ پکڑا جاتا اگر میڈیا کے ذریعے بچی کے والد کی آواز چیف جسٹس ثاقب نثار‘ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور چیف جسٹس منصور علی شاہ کے کانوں سے نہ ٹکراتی۔
اگلے سو سال میں بیس ”جمہوری‘‘ حکومتیں آ کر ختم ہو جاتیں تب بھی اس ملزم کا کھرا نہ ملتا اگر میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر زینب کی آہ کروڑوں دلوں کو نہ چیرتی اور یہ ساری کی ساری فرانزک لیبز‘ ایجنسیاں اور ڈی پی اوز ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے اگر قصور کے عوام مشتعل ہو کر سڑکوں پر نہ نکلتے اور اپنا حق لینے کے لئے پولیس کی سیدھی گولیاں اپنے سینوں پر کھا کھا کر نہ گرتے۔ یوں یہ کیس بھی ایمان‘ کائنات‘ عائشہ اور دیگر بچیوں کی طرح ان کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا۔
اس کیس کو حل کرنے کا کریڈٹ لینے والے کیوں نہیں بتاتے کہ اوپر سے جب تک ڈنڈا نہ آئے تب تک کوئی اپنی کرسی سے ہلنے تک کو تیار نہیں ہوتا۔ آپ قوم کو کھل کر کیوں نہیں بتا دیتے کہ یہ فرانزک لیب گزشتہ پانچ برس سے آپریشنل ہے لیکن یہاں پر اسی کیس کی تفتیش کروائی جا سکتی ہے جس کی منظوری بذریعہ ملک احمد خان‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف دیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح زینب کیس پر پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ بیٹھے زینب کے والد کو اتنے سیکنڈ ہی بولنے کی اجازت ملی‘
جتنا وزیراعلیٰ نے چاہا اور اس کے بعد وزیراعلیٰ نے خود ان کے دونوں مائیک بند کر دئیے۔ کیا یہ وہ عزت اور احترام تھا جس کیلئے انہیں ساتھ بٹھایا گیا تھا؟ کانفرنس کے دوران قہقہے لگا کر ایسا ماحول بنایا گیا جیسے یہاں کوئی میلہ سجا ہو اور افسران کی ترقیوں کی کوئی تقریب ہو رہی ہو۔معروف کالم نگار نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ بعد میں زینب کے والد نے پریس کانفرنس میں تالیاں بجانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اپنی بچی کے غم میں تڑپ اور آنسو بہا رہے ہیں اور شاید شرکا نے اسی تڑپ اور آنسوؤں پر تالیاں بجائیں۔