بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

زینب کے والدین نے ایک کاغذ پر 9مطالبات لکھ کو شہبازشریف کو پیش کر دئیے

datetime 25  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)قصور میں زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل ہونے والی زینب کے والدین نے  پنجاب حکومت کو 9مطالبات پیش کر دئیے ۔پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے کہا ہے کہ زینب کے والدین نے 9مطالبات کاغذ پر لکھ کر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو دیئے ہیں ۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دونوں مائیک حاجی محمد امین کے سامنے پڑے تھے۔

جبکہ شہباز شریف سے بار بار سوالات کئے جا رہے تھے جس پر وزیر اعلیٰ شہبازشریف نے کہا کہ میں بات ختم کر لوں پھر جواب دوں گا ۔جبکہ ایمان فاطمہ قتل کیس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ایمان فاطمہ قتل کیس میں مدثر کو پکڑا ،پولیس کا موقف تھا کہ مدثر زیادتی کے کیس میں ملوث ہے اگر پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہوا تو کارروائی کی جائے گی ۔ادھر قصور میں کمسن بچیوں کے قتل اور لاشیں ملنے پر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے جعلی مقابلوں میں بندے مارے جانے کا انکشاف ہوا ہے، عوام کو مطمئن کرنے کیلئے قاتل قرار دیتی رہی، ایمان فاطمہ کا قاتل قرار دیکر مدثر نامی شخص کو جعلی مقابلے میں پار کرنے کے معاملے کی ازسر نو تحقیقات شروع۔ تفصیلات کے مطابق قصور میں کمسن بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کی پے درپے وارداتوں پر پولیس نے عوامی احتجاج اور غم و غصے کو قابو کرنے کیلئے انوکھا طریقہ اپنا رکھا تھا جس سے اس کی روایتی سستی، بے شرمی اور نا اہلی کے ساتھ سفاکیت بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔گزشتہ سال پولیس نے فروری کے مہینے میں مدثر حسین نامی ایک شخص کو گھر سے بلا کر قتل کردیا اور اس پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اس سے قبل قتل ہونے والی سات بچیوں کے اغواءاور قتل میں ملوث ہے۔

واضح رہے کہ متاثرہ بچیوں میں پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھی جس کے قتل کے شبہ میں بے گناہ مدثر کو ہلاک کردیا گیا۔روزنامہ خبریں کی رپورٹ کے مطابق مدثر کے قتل یا مبینہ پولیس مقابلہ کی ازسرنوتحقیقات کی جائیں گی تاہم قصور کے شہریوں کا پولیس کے خلاف غم و غصہ اور ناراضی بدستور برقرار ہے کیونکہ ملزم کی گرفتاری کے بعد چھٹنے والی دھند نے اس امر کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا ہے۔

کہ قصور میں یکے بعد دیگرے معصوم بچیوں کو اغواءاور زیادتی کے بعد قتل کیا جاتا رہا مگر پولیس کی مجرمانہ غفلت سے قاتلوں کے حوصلے بڑھتے رہے اور ایک درجن معصوم بچیاں لقمہ اجمل بن گئیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ بستی قادر آباد سے جس بچی کو اغواءکیاگیا اور جب اغواءکے بعد بچی کی نعش ملی اور عوام سڑکوں پر نکلے تو گرفتار کئے گئے ایک اور ملزم کو مبینہ مقابلہ میں ہلاک کردیا گیا حالانکہ یہ دونوں بچیاں حال ہی میں آنے والے ڈی این اے میں ان مقتولین میں شامل ہیں۔

جن کا ڈی این اے ملزم عمران علی سے ملا ہے اور پولیس دو بندوں کو یکے بعد دیگرے مارتے وقت یہ دعوے کررہی تھی کہ ان دو بچیوں کے قاتل جعلی مقابلے میں مارے جانے والے لوگ ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس دو سال تک عوام کی آنکھیوں میں دھول جھونکتی رہی ہے اور نہ صرف پیشہ وارانہ غفلت کا ارتکاب کیا بلکہ بے گناہ لوگوں کو بھی جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…