لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے جنسی درندے عمران کو جہاں سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے وہیں اس کیس میں قانونی پیچیدگیاں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ زینب قتل کیس میں پنجاب حکومت اور سینئر تفتیشی پولیس افسران گرفتار ملزم عمران علی کے ڈی این اے کو لیکر تذبذب کا شکار ہیں ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آج سے دو سال پہلے 2016میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ جب دیگر مہیا کی گئی بڑی تعداد میں شہادتوں کو نا قابل یقین سمجھا جائے تو ڈی این اے پر اعتماد کرتے ہوئے ملزم کو سزائے موت نہیں دی سکتی اس سے پہلے بھی اس قسم کے کیس میں دو ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا ۔سینئر پولیس افسران کی جانب سے بتایا گیا کہ ملزم عمران علی کو ڈی این اے میچنگ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے اس کے علاوہ ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کیا گیا ہے جسے بطور بنیادی شہادت بنا کر ملزم کا چالان نہیں کیا جا سکتا ۔تاہم پولی گرافک ٹیسٹ معاون شہادت کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی اسے بنیاد بنا کرعمران کو سزا نہیں دی سکتی ۔کیس کا فیصلہ کیا ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا لیکن زینب کے قاتل کو عبرتناک سزا دیکر ایک مثال قائم کی جانی چاہئے۔