اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سات سالہ زینب کو قتل کرنے والے ملزم عمران کی گرفتاری سے قبل 13 زیر حراست افراد نے زینب کے قتل کا اعتراف کیا تھا اور پولیس انہیں ہی قاتل سمجھ رہی تھی، ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق حساس اداروں کی بروقت مداخلت کرنے اور خود زینب کیس کی نگرانی کرنے کی وجہ سے بے گناہ افراد کے سر یہ قتل نہ ڈالا گیا، اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملزم عمران جو کہ آٹھ بچیوں کے قتل میں ملوث ہے،
اس کے حوالے سے تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمران ہر واردات کے بعد دو سے تین شہروں میں وقت گزار کر آتا تھا اور یہ شہر شیخوپورہ، پاکپتن، لاہور اور ساہیوال ہیں۔ ملزم عمران نے اس قسم کی تمام وارداتیں زیر تعمیر گھروں میں کیں اور کوئی بھی واردات کرنے سے پہلے اس علاقے کے قریب ترین زیر تعمیر گھر میں جاتا اور دو دن لگا کر وہاں جگہ بناتا اس کے بعد بچی کو اغوا کرتا اور زیر تعمیر مکان میں لے جاتا، وہ وہاں اس بچی کو گھنٹوں رکھتا اور اس کے بعد فجر سے قبل ہی بچی کی لاش کو کسی بھی مقام پر پھینک جاتا۔ اس ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ 14 تاریخ کو لیا گیا جب اس سے ٹیسٹ لینے والی ٹیم نے شناختی کارڈ کے حوالے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے اور اس موقع پر اس نے اپنا نام عمران علی بتایا۔ جس وقت ملزم عمران کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا جا رہا تھا تو اس وقت تقریباً سو افراد ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے موجود تھے اس موقع پر عمران شور مچاتا رہا کہ پولیس والے جان بوجھ کر محلے داروں کو تنگ کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو ایسا پیش کر رہا تھا کہ جیسی سے محلے داروں کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اخبار کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 14 تاریخ سے پہلے جب شک کی بناء پر ملزم عمران کو پولیس نے پکڑا تو اسے چار گھنٹے بعد ہی یہ کہہ کر چھوڑ دیاگیا کہ یہ بیمار ہے، رپورٹ کے مطابق ملزم عمران کی دوبارہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب 14 تاریخ اور 20 تاریخ کو لیے گئے ٹیسٹوں سے متعلق تفتیشی ٹیم کو بتایا گیا کہ عمران نامی شخص کا ڈی این اے مل گیا ہے۔
اس موقع پر حساس اداروں اور پولیس کی ایک ٹیم نے فوری طور پر عمران کا ریکارڈ چیک کیا اور اس کے گھر سے اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ ملزم عمران کی گرفتاری کے ساتھ ہی اس کے گھر والوں کو بھی گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ ملزم عمران کے حوالے سے تفتیشی عمل چار گھنٹوں میں ہی مکمل ہوگیا تھا، عمران کے انکشافات پر تفتیشی ٹیم نے ثبوت جمع کرکے میڈیا کو بتایا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی میں سب سے زیادہ اہم کام آئی ایس آئی اور ایم آئی نے کیا۔ ان دونوں اداروں نے ملزم کی پہلے ہی نگرانی رکھی ہوئی تھی اور پہلے ہی کافی حد تک ایسے شواہد اکٹھے کر چکے تھے جو اس کو ملزم ثابت کر رہے تھے، اس موقع پر ان حساس اداروں کو صرف اس کے ڈی این اے ٹیسٹ رزلٹ کا انتظار تھا۔پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق زینب قتل کیس میں صرف عمران ہی ملوث ہے۔ اس کیس میں اس کے خاندان کا کوئی فرد شامل نہیں ہے۔