کراچی(آئی این پی) چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا کہ مجھے لیڈری کرنے کا کوئی شوق نہیں ‘مجھ پر جس نے تنقید کرنی ہے کرلے ‘ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، کراچی کو گندگی کا ڈھیر بنادیا گیا ہے، کوتاہی برتنے والوں کو نہیں بخشیں گے، بغیر جواب دیئے چیف سیکرٹری اور ایم ڈی واٹر بورڈ کو نہیں جانے دیں گے، صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، رات12 بجے تک سماعت کرنے
پڑی تو کریں گے، مجھے کہا گیا کہ آپ نے کہاں ہاتھ ڈال دیا ہے، ہم کراچی کا مسئلہ حل کرکے دکھائیں گے، واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے پاس توہیں عدالت کا اختیار بھی ہے‘ دریائوں اور نہروں میں زہریلا پانی ڈالا جارہا ہے، اپنے اختیارات جانتے ہیں آئین پر عملدرآمد کرائیں گے۔ہفتہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی کے معاملہ پر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی، چیف جسٹس نے کہا معاملہ سنگین ہے، رات12بجے تک بھی سماعت کرنا پڑی تو کریں گے، شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جارہا ہے، صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیںکہ ہمارے پاس توہین عدالت کا اختیار بھی ہے، واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی اور اسباب بھی بتائے، سندھ حکومت نے واٹر کمیشن رپورٹ پر اعتراض نہیں اٹھایا، وزیراعلیٰ سندھ کو بھی اس لیے بلایاتھا کہ ٹائم فریم دیں، دریائوں اور نہروں میں زہریلا پانی ڈالا جارہا ہے، پنجاب میں بھی معاملے کو اٹھایا ہے، معاملے کو پنجاب میں بھی حل کرکے رہیں گے، بتایا جائے سارا معاملہ کہاں سے شروع ہوا، صاف پانی کی فراہمی، ٹینکر مافیا کا سدباب کرناسندھ حکومت کا کام ہے، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی کو گندگی کا ڈھیر
بنادیا گیا ہے، جو پانی بوتلوں میں بیچا جارہا ہے، وہ ٹھیک نہیں، کہا گیا آپ نے کہاں ہاتھ ڈال دیا، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سماعت کو18 دن ہوگئے آپ نے کیا کام کیا؟معاملے کے حل کا ٹائم فریم لکھ کردیں، مجھے لاہور میں کہا گیا کراچی کا کچھ نہیں بننے والا، جہاز میں بھی مجھے کہا گیا کہ کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے، کراچی کا مسئلہ ہم حل کرکے دکھائیں ، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ
2ماہ کے اندر کام کرکے دکھائیں ،فائلز چھوڑ دیں یہ بتائیں کونسا کام پہلے ہوگا؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایک سماعت یہاں دوسری واٹر کمیشن میں جاری ہے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈرامہ اب چھوڑ دیں، ہم واٹرکمیشن کی درخواستیں بھی یہاں منگوالیتے ہیں، ایم دی واٹر بورڈ نے کہا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس ختم کردیئے گئے، گندا پانی پائپ لائنز کی لیکج کے باعث شامل ہورہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ
پانی کی قلت سے واٹرمافیامضبوط ہوتی ہے، ایم دی واٹر بورڈ نے کہا کہ پانی کی چوری کی مستقل نگرانی کررہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کام کر چاہیں تو مخیر حضرات بھی مل جائیں گے، کام کے حوالے سے آپ کی ہمت نظر آنی چاہیے، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا نے بتایا کہ کینجھر جھیل سے آنے والا پانی صاف ہے، لائنوں میں غیر قانونی کنکشن اور لیکج گندے پانی کی وجہ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کینجھر جھیل سے صاف پانی آنے کی
ضمانت دے سکتے ہیں پانی سے صرف مٹی نکالنا فلٹریشن نہیں، کیا یہ پانی پاک اور پینے کے قابل ہوتا ہے؟،ایم ڈی بورڈ ہاشم رضا نے کہا ہے کہ کراچی کے 30فیصد علاقے واٹر بورڈ کے سسٹم میں شامل نہیں، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کی ذمہ داری ہے، مگر وہاں ٹینکرز چلتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کل رات بھی باتھ آئی لینڈ میں ٹینکر زسے پانی لیا گیا ، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ باتھ ٓائی لینڈ کنٹونمنٹ ایریا میں شامل نہیں، ایم ڈی بورڈ نے
بتایا کہ باتھ آئی لینڈ کے ایم سی کے تحت ہے، لیکن آخری حدود میں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہر مسئلے کا جواز طے کر بیٹھے ہیں، واٹر ٹینکرز اور ہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیا ااپ کا بندہ ماہانہ پیسے وصول نہیں کرتا ، پانی دیتے مگر ٹینکرز چلاکر کمائی کا دھندہ چل رہا ہے، جن لوگوں نے کوتاہی برتی انھیں نہیں بخشا جائے گا، چیف سیکرٹری بتائیں کس کی کتنے درجے تنزلی کرنی ہے، حلف نامہ دیا گیا تھا کہ
سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنایا جائے گا، پلانٹ کیلئے پروجیکٹ جون2018 میں مکمل کرنے کا کہا گیا تھا، پلانٹ سے متعلق کوئی پیشرفت نظر نہیں آرہی ، 8ارب کا پروجیکٹ اب 36ارب تک پہنچ گیا ، ہمیں نتائج چاہیں، جواب دیئے بغیر چیف سیکرٹری اور ایم ڈی بورڈ کو نہیں جانے دیں گے، ٹینکر مافیا پانی بیچتا ہے اور کمائی ہورہی ہے، جہاں واٹر بورڈ لائن نہیں مفت پانی پہنچائیں، ایم ڈی بورڈ نے بتایا کہ ڈپٹی کمیشنر کی وجہ سے مفت پانی فراہم نہیں
کیا جاتا، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ دن لگے یا رات لگے کام کرکہ دکھائیں ، بھینسوں کا فضلہ نہروں میں چھوڑا جارہا ہے، ہیپاٹائٹس سی بڑھ رہا ہے، کبھی آپ نے غور کیا، ایم ڈی بورڈ نے بتایا کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق کام کررہے ہیں، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہماری ہدایت سے پہلے آپ لوگ سورہے تھے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نظر آرہا ہے ، پانی کی لائنوں کی صورتحال خراب ہے، آپ نے اب تک کیا کام کیا ہے،
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بجٹ میں رقم جاری ہوتی ہے، مگر کام نہیں ہوتا،10سال بعد پائپ لائنس تبدیل ہوتی ہیں، سب جانتے ہیں،ایم ڈی واٹر بورڈہاشم رضا نے بتایا کہ ہم سنجیدگی سے کام کررہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا مجھے آپ کی سنجیدگی آپ کی باتوں سے نظر آرہی ، سنجیدگی کا کام سے پتہ چلے گا، چیف سیکرٹری کو اور کوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھے بتایا نہ جائے کہ کام کب ہوگا، ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ ہائیڈرنٹس کے ذریعے
2.5 فیصدپانی فراہم کیا جاتا ہے، 13ملین گیلن یومیہ پانی ٹینکرز کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹینکر میں کتنے ہزار گیلن پانی دیا جاتا ہے، ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ ایک ٹینکر میں 3 ہزار گیلن پانی کی گنجائش ہوتی ہے۔یہ اندازہ لگایا گیا کبھی کتنے ہزار ٹینکر روزانہ استعمال ہوتے ہیں، کے فور سے 900ملین گیلن سے زائد پانی دستیاب ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات ہوئے چیف
جسٹس میو اسپتال کیوں گئے، اسپتال کا دورہ انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے کیا، مجھ پر تنقید جس نے بھی کرنی کرلے، صاف کہنا چاہتاہوں، مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں، میو اسپتال میں وینٹی لیٹر کی سہولت موجود نہیں تھی، آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، پانی اور صحت کی فراہمی کیلئے جو کرنا پڑا کریں گے، ہم چاہتے ہیں اپنے بچوں کو ایک اچھا ملک دے کر جائیں، صرف بچوں کو گاڑی خرید کر دینا ہی کافی
نہیں ہوتا، موجودہ کیفیت کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جو ادارے پر برسراقتدار رہا، کوئی مزدور اور غریب شہری ملک کی صورتحال کا ذمہ دار نہیں ہم کسی ایم ڈی واٹر بورڈ اور کسی سیکرٹری کو نہیں جانتے، وزیراعلیٰ اور کابینہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں، اور نتائج چاہتے ہیں چیف سیکرٹری نے کہا کہ ایس تھری پروجیکٹ سے متعلق بتایا گیا اسی پر حلف داخل کیا، چیف سیکرٹری نے منصوبے میں تاخیر کا ذمہ دار پروجیکٹ ڈائریکٹر کو قرار دے دیا،
پروجیکٹ ڈائریکٹر کے کہنے پر ایک ارب سے زائد رقم منظور کرائی، اب یہ کہہ رہے ہیں، 8ارب سے کم کام نہیں ہوگا، عدالت میں موجود ہوں، جو سزا دینا چاہتے ہیں دے دیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ چیف سیکرٹری کے عہدے کی عزت برقرار رکھی ہے۔پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ 2016 سے اب تک 80 فیصد کارکردگی دکھائی، سندھ حکومت نے اب تک صرف 10کروڑ جاری کیئے، عدالت خود بتائے10کروڑ میں کیا ہوسکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ سکتے ہیں10کروڑ میں تو کھانے ہی پورے ہوسکتے ہیں، عدالت کہیں اختیارات سے تجاوز نہیں کررہی ، چیف سیکرٹری کی انڈر ٹیکنگ پر چاہیں تو ابھی معطل کردیں۔(خ ف)