فوج اور عدلیہ کا احتساب، ن لیگ،تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی نے مل کربڑا فیصلہ کرلیا

1  ‬‮نومبر‬‮  2017

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون نے متفقہ طور پر عدلیہ کے اراکین اور فوج کو مجوزہ احتسابی قانون کے دائرے میں نہ لانے کا فیصلہ کرلیا۔تفصیلات کے مطابق نئے احتساب قانون کے تحت بلاتفریق احتساب کو یقینی بنانے کی تجویز دی گئی تھی جس میں ججوں اور جرنیلوں کو بھی شامل کیا گیا تھا تاہم اکتوبر کے اوائل میں ہی پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ایک سال سے زیر بحث بل پر اس وقت غصے کا اظہار کیا تھا

جب کمیٹی کے 13 ویں اجلاس میں نیا موقف لیا گیا تھا جس کے باعث حتمی شکل اختیار کرنے کے قریب پہنچنے والے بل میں موجود اتفاق رائے تقسیم ہوگئی تھی۔بل میں ججوں اور جرنیلوں کو شامل کرنے کی ترمیم پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سرکاری عہدہ رکھنے والوں کا احتساب کے نام سے پیش کیا تھا ٗبعدازاں میں پی پی پی نئے احتسابی بل میں ججوں اور جرنیلوں کو شامل کرنے کی اپنی ترمیم سے مکر گئی تھی۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ مجوزہ احتساب قانون کے دائرہ کار میں عدلیہ اور مسلح افواج کو نہیں لایا جائے گا اور اس نکتے پر تمام جماعتوں نے اتفاق کرلیا ہے۔انھوں نے کہا کہ نئے احتساب کمیشن کے قیام کے بعد تمام زیرالتوا انکوائریاں اور مقدمات وہاں منتقل کیے جائیں گے تاہم مقدمات احتساب کمیشن یا نئی عدالتوں کو منتقل ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوں گے۔زاہد حامد نے کہا کہ احتساب کا ایسا قانون بنانا چاہتے ہیں جس میں انصاف بھی ہو اور احتساب بھی ہو۔انہوں نے کہاکہ 1999کا نیب قانون انتہائی سخت ہے اور پی ٹی آئی نیب کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تاہم ہم تمام جماعتوں کو سات لے کر چلنا چاہتے ہیں ٗپی ٹی آئی کی جانب سے پیش کردہ ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نیب قانون 2017 کے بجائے قومی احتساب کمیشن (این اے سی) بل 2017 کے نام کے خلاف ہے۔دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی احتساب کمیشن کے قانون کو مسترد کردیا ہے۔

جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں نیب قانون میں ہی بہتری لائی جائے۔جماعت اسلامی نے بھی پارلیمانی کمیٹی میں اپنی ترامیم جمع کرا دی ہیں۔پی ٹی آئی نے کمیٹی کے 16 ویں اجلاس سے واک آؤٹ کیا اور شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت ان کی پارٹی کے مطالبات ماننے کو تیار نہیں ہے۔شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی رویے پر واک آؤٹ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پارلیمانی کمیٹی کلاس روم تو نہیں جہاں ہاتھ کھڑے کرکے بات کرنے کی اجازت مانگیں تاہم احتساب کمیشن کے لیے اپنی ترامیم پارلیمنٹ میں لائیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ احتساب کمیشن کے سربراہ کے تقرر میں اپوزیشن اور وزیراعظم میں مک مکا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں۔شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے بھی ججوں اور جرنیلوں کے احتساب سے متعلق اپنی تجویز واپس لے لی ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں نے دونوں اداروں کے حوالے سے اس فیصلے پر اتفاق کیا ہے کیونکہ ان کے اراکین کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اداروں کا اپنا ایک نظام موجود ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…