لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ پہلے بھی سیاست کا محور نواز شریف تھے اور نا اہلی کے بعد بھی سیاست نواز شریف کے گرد گھوم رہی ہے اور وہی سیاست کا محور ہیں ،ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو یہ پاکستان کیلئے بہتر ہوگا ، اداروں میں باہمی احترام ہونا چاہیے ، میں امید کرتی ہوں کہ انشا اللہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی ، ہمارے خلاف کیسز میں جو پراسس چل رہا ہے اس سے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ،
معلوم ہوا ہے ہمار ے خلاف اب ثبوت ڈھونڈے جارہے ہیں لیکن ثبوت مل نہیں رہے ،شریف خاندان اور (ن) لیگ میں اختلافات کی خواہش رکھنے والے پہلے بھی ناکام ہوئے اور ان کی خواہش اب بھی پوری نہیں ہو گی ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے سابق رکن پنجاب اسمبلی حافظ میاں نعمان کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔مریم نواز نے کہا کہ پاک فوج کا ادارہ ہماری حفاظت کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے افسران اور جوان ہمارے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں، ہم سب اس کو آن کرتے ہیں ۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے تو یہ پاکستان کے لئے اچھا ہوگا ، اداروں میں باہمی احترام ہونا چاہیے ، ہم اپنے ادارے کے ساتھ کھڑے ہیں اسے جب بھی ہماری سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے ہم حاضر ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ (ن) لیگ متحد ہے ، باقی پارٹیوں کی طرف سے جو اچھل کود کی جارہی ہے او رصبح سے لے کر رات تک بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے انہیں مایوسی ہو گی ۔ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تب بھی سیاست کا محور تھے اور نا اہلی کے فیصلے کے بعد بھی وہی سیاست کا محور ہیں اور سیاست ان کے اردگرد گھوم رہی ہے ، جو لوگ چاہتے ہیں ہیں کہ وہ محدود ہو جائیں گے ان کے دلوں کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ انصاف کا یہ عالم ہے کہ جس کا نام نہیں تھا اس پر بھی مقدمہ چل رہا ہے ، منی لانڈرنگ کا کہیں ذکر نہیں تھا ، یہ دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے، یہاں نااہلی پہلے ہوئی اور کیسز بعد میں چلے ہیں، پہلے سزا دی گئی اور ثبوت بعد میں ڈھونڈے جارہے ہیں ،ہو سکتاہے یہ قیامت تک چلے اور کچھ نہیں نکلے گا۔معلوم ہوا ہے کہ اب ثبوت ڈھونڈے جارہے ہیں ، ثبوت وہ ڈھونڈ رہے ہیں جن کو ثبوت مل نہیں رہے ۔ انہوں نے اس سوال کہ کون شریف خاندان کا مخالف ہے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو اس کا جواب دوں گی ،
وقت اس کا جواب دے گا ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کا پراسس چل رہا ہے اس سے انصاف کی امید رکھنی نہیں چاہیے ۔ جو سلسلہ چلایا گیا ہے وہ پوری دنیا نے دیکھا ہے لیکن امید پر دنیا قائم ہے ۔اس طرح کی جو منصوبہ بندی ہوتی ہے یہ شارٹ ٹرم ہوتی ہے اور یہ اپنی زندگی اور مدت پوری کر چکی ہے اب حقائق سامنے آنے کا وقت ہے اور ایسے لوگ ناکام ہوں گے۔ انہوں نے ریاض پیر زادہ کی طرف سے شہباز شریف کو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے مشورے پر کہا کہ میں اس پر کچھ نہیں کہوں گی ۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہی نیب ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ نیب وفات پا چکا ہے اب یہ اچانک زندہ کیسے ہو گیا ، جس ادارے کو برا کہا گیا یہ اچھا کیسے ہو گیا ،یہ تبدیلی کیسے آئی یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا کارکن پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ(ن) لیگ کے پیچھے کھڑا ہے ۔ نا اہلی کے فیصلے نے میاں صاحب کو فائدہ دیا ہے ۔ ہم چار سال حکومت میں تھے کچھ کارکن خوش ہوتے ہیں کچھ ناراض ہوتے ہیں جو کارکن ناراض تھے
وہ بھی اب پوری قوت کے ساتھ ہمارے ساتھ ہیں اور (ن) لیگ کے کارکن کو جتنا کمٹڈ اب دیکھا ہے ا س سے پہلے ایسا نہیں تھا بلکہ (ن) لیگ کا کارکن آج نواز شریف کے بیانیے کو آگے بڑھارہا ہے ۔ انہوں نے آئندہ عام انتخابات میں این اے 120 سے انتخاب لڑنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اس کا اکیلے فیصلہ نہیں کرنا ، پارٹی بیٹھے گی اور فیصلہ کرے گی ۔ مجھے این اے 120کے ضمنی انتخاب میں والدہ کی انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی جسے میں نے احسن انداز میں نبھانے کی کوشش کی ہے ۔
آئندہ بھی قیادت جو بہتر سمجھے گی کہ مجھے کیا کردار ملنا چاہیے مجھے انتخاب لڑنا ہے یا نہیں وہی فیصلے کر یگی ۔ انہوں نے آصف علی زرداری کے مارچ میں انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ انشااللہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کریگی ۔ انہوں نے اس سوال کہ عمران خان نواز شریف سے خوفزدہ ہیں یا مریم نواز سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کہا کہ کچھ لوگوں کی قسمت میں ہی خوفزدہ ہونا ، رونا ، دھونا لکھا ہوتا ہے اس میں میں کیا کر سکتی ہوں ۔ انہوں نے آصف علی زرداری کے اس مطالبے کے شریف خاندان کو گرفتار کیاجانا چاہیے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ان کا اپنا بیان نہیں ہے ۔ انہوں نے (ن) لیگ کے حامیوں کی گرفتاری کے سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے نہ اس کی اطلاعات ہیں اور نہ تفصیلات کا علم ہے لیکن وزارت داخلہ کو معلوم کرنا چاہیے کہ کون اٹھا رہا ہے ۔