جموں (اے این این )بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت مظالم سے تنگ اور مایوس کشمیری نوجوانوں کو مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے سے روکا نہیں جا سکتا،وادی میں عسکریت پسندی نے پہلے بھی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ،بنیاد پرستی کے پھیلاؤ کا ذمہ دار سوشل میڈیا ہے لوگوں کو اس سے دور رکھنے کیلئے کوشاں ہیں،پاک بھارت مذاکرات کا فیصلہ سیاسی سطح کا معاملہ ہے ،ہم فوج کا کردار ادا کرتے رہیں ،
ہم حکومت کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں ،این آئی اے کی کارروائیاں بھی فوجی مہم کا ایک حصہ ہے۔جموں میں بھارتی فوج کی ایک تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں حالات بتدریج بہتری کی جانب گامزن ہیں اور وہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس سے جنگجوؤں اور ان کے معاؤنین کی مایوسی کا ہی خلاصہ ہوتا ہے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وادی میں عسکریت پسندی نے اس سے قبل بھی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ، اگر چہ ہم نے کئی ملی ٹینٹوں کو ہلاک کر دیا ہے لیکن دیگر کئی نوجوان عسکری صفوں میں شامل ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں جس کے لئے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی منفی مہم ذمہ دار ہے ۔ جنرل راؤت نے مزید کہا کہ بنیاد پرستی اس وقت ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے اور ہم اس کے خاتمہ کے لئے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ جموں کشمیر کی حکومت، پولیس اور سول انتظامیہ، غرضیکہ ہر کوئی بنیاد پرستی کے معاملہ پر فکر مند ہے ، اسے پھیلانے میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لوگ اس سے دور ر ہیں۔کشمیری علیحدگی پسندوں پر این آئی اے کی طرف سے شکنجہ کسے جانے کا ذکر کرتے ہوئے جنرل راوت نے کہا کہ ہم حکومت کی طرف سے طے کردہ حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں
اور این آئی اے کی کارروائی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ این آئی اے کی طرف سے مارے گئے چھاپوں کے ثمرات مستقبل قریب میں سامنے آئیں گے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ پر امن اور خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے جنرل موصوف نے کہا کہ فوج کے جو فرائض ہوتے ہیں ہم وہ ادا کرتے رہیں گے، مذاکرات وغیرہ کا فیصلہ سیاسی سطح پر لیا جاتا ہے ،
ہم اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہیں گے۔اوڑی اور نگروٹہ میں ہوئے فدائین حملوں کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے ، جن لوگوں کو قصور وار پایا گیا ہے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔چین کی طرف سے درپیش خطرات کے پیش نظر فوجی توسیع کا ذکر کرتے ہوئے جنرل بپن نے کہا کہ مشرقی لداخ میں 17کورکے تحت 72انفنٹری ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں
انھوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں گیسو تراشی کے واقعات کسی بھی طرح وہاں تعینات فورسز کے لئے چیلنج نہیں ہیں لیکن میڈیا کو چاہئے کہ وہ ان عناصر کو بے نقاب کرے جو لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ جنرل کا کہنا تھا کہ آپ گیسو تراشی کے معاملات کو آرمی یا سیکورٹی فورسز کیلئے چیلنج کیوں قرار دے رہے ہیں ؟ اس سے پہلے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ا ب کشمیر میں ہو رہا ہے ،ہم اسے کسی
بھی طور غیر معمولی واقعات نہیں سمجھ سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ مطلوبہ اقدامات کر رہے ہیں ، میڈیا کا اس میں ایک رول بنتا ہے کہ علیحدگی پسندوں اور دیگر طاقتوں کو بے نقاب کریں جو اس حوالہ سے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فوج کے لئے کوئی بھی نشانہ ناممکن نہیں ہے ، ہم ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے اہل ہیں اور اگر ہمیں کوئی بھی کام سونپا گیا تو ہم اسے کامیابی سے پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔