ٰاسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہاہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے زیرو لائن (پاک افغان سرحد) پر ہوئے اور کوئی حملہ پاکستانی حدود میں نہیں ہوا۔ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر یقیناًکوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ ہوگا جسے نشانہ بنانے کے لیے امریکا ڈرون حملے کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ چند سال قبل تک ڈرون حملے روزانہ کا معمول تھے جو پاکستانی حدود میں ہوتے تھے
تاہم ہم نے گزشتہ 4 برسوں سے جاری فوجی آپریشن کے ذریعے ملک کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے پاک کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غیر ملکی خاندان افغانستان کی سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوئے جس کے بعد پاک فوج نے امریکا کی انٹیلی جنس معلومات پر کارروائی کرتے فیملی کو بازیاب کرایا۔خواجہ آصف نے کہاکہ امریکا سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ اگر امریکی فوج کے پاس غیر ملکی خاندان کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات تھیں تو اس نے افغانستان میں ہی ریسکیو آپریشن کیوں نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے بلوچستان میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر پر ڈرون حملہ کیا حالانکہ وہ انہیں پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے قبل بھی ہلاک کر سکتا تھا۔انہوں نے کہاکہ امریکا پاکستانی سرحدوں پر ڈرون حملے میں مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کر کے ہم پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔مسقط میں افغانستان سے متعلق چار فریقی اجلاس کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ مذاکرات کے پہلے مرحلے سے فریقین مطمئن ہیں ٗان مذاکرات سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں تھیں لیکن شروعات ٹھیک ہوئی ہے تاہم حالیہ ڈرون حملے ان مذاکرات میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔طالبان پر پاکستانی اثر و رسوخ میں کمی کا اعتراف کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کا اثرو رسوخ بڑھا ہے اور پاکستان کا کم ہوا ہے جس کی بڑی وجہ ہمارا دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کیا گیا فوجی آپریشن ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے صرف پاکستان کی ہی انفرادی کوشش نہیں بلکہ افغان حکومت اور امریکا بھی ان سے مسلسل رابطے میں ہے۔