اسلام آباد(آئی این پی )وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار تیسری مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے جس دوران نیب ریفرنس کے دو گواہوں نے احتساب عدالت میں وزیر خزانہ کے خلاف ریونیو اور بینک ریکارڈ پیش کیا جبکہ عدالت نے مزید دو گواہوں کو طلب کرتے ہوئے اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 12اکتوبر تک ملتوی کردی۔ بدھ کواسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج
محمد بشیر نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی ، نیب نے استغاثہ کے 28 میں سے 2 گواہ ان لینڈ ریوینیو کمشنر لاہور اشتیاق علی اور نجی بینک (البرکہ) کے سینئر نائب صدر طارق جاوید ریکارڈ سمیت پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران ان لینڈ ریوینیو کمشنر لاہور اشتیاق علی نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا۔سماعت کے دوران جج محمد بشیر نے ملزم اسحاق ڈار کی موجودگی سے متعلق استفسار کیا تو نیب حکام نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو 8 بجے یہاں آنا چاہیے تھا، وہ کیوں انتظار کروا رہے ہیں جس پر عدالت نے سماعت 20 منٹ کے لئے ملتوی کی تو اسحاق ڈار وکلا کے ٹیم کے ہمراہ کچھ دیر بعد عدالت پہنچے۔نیب کی ٹیم اور استغاثہ کے 28 میں سے 2 گواہ عدالت میں موجود ہیں، استغاثہ کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے پہلے گواہ اشتیاق احمد ہیں جو ان لینڈ ریوینیو کمشنر لاہور ہیں جب کہ دوسرے گواہ طارق جاوید البرکہ بینک کے سینئر نائب صدر ہیں۔ عدالت میں ان لینڈ ریونیو کمشنر لاہور اور استغاثہ کے گواہ اشتیاق علی پر جرح مکمل کرلی گئی۔ عدالت نے مزید دو گواہوں کو طلب کرتے ہوئے اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 12اکتوبر تک ملتوی کردی۔ اسحاق ڈار کی پیشی پر جوڈیشل
کمپلیکس کے باہر وفاقی پولیس کے500اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ایس ایس پی سیکورٹی جمیل ہاشمی کے مطابق پولیس سیکورٹی فراہم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے تاہم رینجرز کو پہلے طلب کیا تھا نہ اب کریں گے۔احتساب عدالت نے گزشتہ سماعت پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تاہم انہوں نے فرد جرم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اپنے خلاف
ٹرائل روکنے کی بھی استدعا کی۔گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اسحاق ڈار کی احتساب عدالت میں ٹرائل روکنے اور فرد جرم کی کارروائی کو معطل کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔واضح رہے کہ نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنسز دائر کیے ہیں اور اسحاق ڈار کے خلاف آمدن
سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے اوریہ ریفرنس نیب نے سپریم کورٹ کے براہ راست حکم پر دائر کیا ہے۔دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔اسحق ڈار پر 27 ستمبر کو ہونے والی گذشتہ سماعت میں فردم جرم عائد کی گئی تھی،
تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔جس کے بعد عدالت عظمی
نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔بعدازاں نیب نے اسحق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرخزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس،
کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔جس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔اسحق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے
کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحق ڈار کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے۔بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ
کمیٹی برائے خزانہ نے اسحق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔