اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے جاری نوازشریف کے بچوں اور ان کے داماد کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری لندن کے پتے پر ارسال کردیئے گئے ہیں۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنس میں پیش نہ ہونے پر مریم، حسن اور حسین نواز سمیت کیپٹن (ر) صفدر کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے اور انہیں 2 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق عدالت سے جاری قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نواز شریف کے بچوں کو لندن کے پتے پر ارسال کردیئے گئے ہیں جبکہ مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو بھی لندن کے پتے پر طلبی کا وارنٹ بھجوایا گیا ۔نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ وارنٹ گرفتاری حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کے نام پر ہیں جن پر ایون فیلڈ فلیٹس لندن کا پتا درج ہے جبکہ وارنٹ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بھجوائے گئے۔واضح رہے کہ نیب ریفرنس پر احتساب عدالت نے نوازشریف پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 2 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے جبکہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شریف خاندان کے خلاف تین اور اسحاق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ اہلیت اور نا اہلیت کے فیصلے کروڑوں انسانوں کو کر نے دو ٗ یہ آئینی حق عوام سے نہ چھینا جائے ٗ وقت آگیا ہے 70سال پرانے کینسر کا علاج تجویز کریں ورنہ خدانخواستہ پاکستان کسی سانحے کا شکار نہ ہوجائے ٗ جھوٹ پرمبنی مقدمات کا سامنا کررہا ہوں، سزائیں پارہاہوں، قائداعظم کے پاکستان ٗعوام ٗآئین ٗجمہوریت ٗعوام کے حق حکمرانی ٗووٹ کے تقدس کامقدمہ لڑرہاہوں اورلڑتارہوں گا ٗ جیت عوام اورپاکستان کی ہوگی ٗجانتا ہوں میرا اصل جرم کیا ہے، لیکن میں عوام کے ساتھ کھڑا رہوں گا ٗمیرے اورعوام کے درمیان خلیج پیدا کرنیکی کوشش خواب ہی رہے گی ٗ
دھرنوں ، جلوسوں اور فتنہ فساد کے باوجود تعمیر و ترقی کا پہیہ نہیں رکا ٗاپنی اورا پنے خاندان کی مشکلات کو عوام کی مشکلات نہیں بننے دوں گا ٗاین اے 120 کا فیصلہ سیاسی تاریخ کے اہم سنگ میل کے طورپر ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ٗہیرو ں سے بنی جے آئی ٹی کے بعض ارکان کے خلاف خود انکوائری چل رہی ہے ٗ یہ ہیرے سب سے مقدس مخلوق بن چکے ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ خود بھی کارروائی نہیں کر سکتی ہے ٗ عدالت نے پْراسرارطریقے سے جے آئی ٹی بنائی ٗ نگرانی بھی کی،
اسی عدالت نے نیب کو سارے ضابطے توڑ کر ریفرنس دائرکرنے کا حکم دیا ٗ اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول سنبھال لیااور احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی، ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی کیا ایساہوتا ہے انصاف؟ کیا اسے کہتے ہیں قانون کی پاسداری؟ آمریت کے دور میں سزائیں پانے کے بعددودفعہ اپیل کاحق تھاجوجمہوری دور میں نہیں ملا ٗلوگوں کو بتادینا چاہیے تھا کیس پاناما کا تھا ٗپاناما میں کچھ نہیں ملا اقامہ پر سزا دی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو صحیح اور صاف بات سمجھ آ جائے ٗفیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی ۔
وہ منگل کو پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ٗوفاقی وزراء ٗ وزرائے مملکت اور اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد موجود تھی ۔سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کہاکہ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے اپنی اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے ہنگامی طورپر لندن جانا پڑا ان کی بیماری کی نوعیت اور علاج کے مرحلوں کی تفصیل آپ کے سامنے آ چکی ہے ٗآپ کے ذریعے پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری اہلیہ کو دعاؤں سے نوازا ٗاللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے ۔
نوازشریف نے کہاکہ یہ بات میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی کہ ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ ملک سے باہر رہونگا ٗکسی مرحلے پر یہ موضوع زیر بحث بھی نہیں آیا ٗمیرے قریبی رفقاء اچھی طرح واقف تھے کہ میر ی جلد از جلد واپسی روانگی کے موقع پر طے ہو چکی تھی، تاہم افسوس ہے کہ جھوٹ بولنے والوں نے طرح طرح کی کہانیاں نکالیں ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے حالات کی سنگینی کا سامنا پہلے بھی کیا ہے اب بھی کررہا ہوں ۔
نوازشریف نے کہاکہ یہ میری ذات کا نہیں ٗ خاندان کا نہیں ٗپاکستان اور بیس کروڑ عوام کا مسئلہ ہے ٗمیں انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے ہر طرح کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آمریت کے دور میں بھی دس سال پہلے اسی ماہ ستمبر میں پی آئی اے کی فلائٹ 786کے ذریعے پاکستان کا سفر طے کیا تھاتب مجھے اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا اور پھر ملک بدر کر دیا گیا اس معاملے پر عدالتی حکم کی اس توہین کا مقدمہ عدالت کی کسی الماری میں پڑا ہوگا
اور ایسے کئی مقدمات کی فائلیں عرصہ دراز سے انصاف کی منتظر ہیں ۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ ہم آئین اور قانون پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں ٗ آئین اور قانون کی سربلندی کیلئے قربانیاں دی ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک ڈکٹیٹر کی آمریت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا ٗ کال کوٹھڑیوں کی قید کاٹی ، ہتھکڑیاں پہنیں ٗجلا وطنی بر داشت کی ٗہائی جیکر ہونے کے جرم میں لمبی قید کی سزا پائی لیکن الحمد اللہ آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا، اس وقت بھی قانون اور انصاف کے عمل سے گزرا ٗ
اب فرق یہ ہے کہ تب آمریت کا دور تھا آج جمہوری دور سے گزررہے ہیں، نوازشر یف نے کہاکہ آمرانہ دور میں دہشتگردی کی عدالتوں سے سزا پانے کے بعد دو اپیلوں کا حق حاصل تھا ٗآج اس حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ عدالت نے پہلے پٹیشن کو فضول اور ناکارہ قرار دیا اور پھر اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت شروع کر دی ٗکوئی ثبوت نہ ملا تو اسی عدالت نے پر اسرار طریقے سے جے آئی ٹی بنا ئی اور نگرانی بھی سنبھال لی اور اسی عدالت نے کبھی پانچ اور کبھی تین جج صاحبان کے ساتھ فیصلے بھی سنا دیئے
اور پھر اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ اپنے سارے ضابطے توڑ کر براہ راست ریفرنس دائر کرو ٗ اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا پھر وہی عدالت احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی اور اگر ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی ٗ کیا ایسا انصاف ہوتا ہے ٗ کیا اسے قانون کی پاسداری کہتے ہیں ٗ کیا آرٹیکل 10اے یہی کہتا ہے ٗکیا فیئر ٹرائل اسے ہی کہتے ہیں ۔ نوازشریف نے کہاکہ میں نے وکلاء کنونشن میں بارہ سوالات اٹھائے تھے
ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ٗکسی ایک سوال کا جواب نہیں آیا جواب آ بھی نہیں سکتا ٗستر سالہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا کیس ہے جس میں دفاع کر نے والے تمام آئینی اور قانونی سلب کر لئے گئے ٗ یہ وہی مقدمات ہیں جنہوں نے سیاسی تاریخ میں24 سال پہلے جنم لیا ٗمشرف کی آمریت میں سزا دلوانے کیلئے استعمال کیا گیا لیکن اس وقت بھی ہر طرح جانچ پڑتال کے بعد رتی بھر الزام ثابت نہ ہو سکے ٗآج بھی آمریت کے دور کے الزامات کو دوبار ہ استعمال کیا جارہا ہے ٗ
ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انصاف اور قانون کے تقاضے بری طرح پامال ہورہے ہیں لیکن ہم کارروائی میں شامل رہے بالآخر فیصلہ یہ آیا کہ ایک پائی کی کرپشن ٗ بد عنوانی ٗ رشوت ٗ کمیشن یا کک بیکس یا پھر اختیارا ت کا کوئی غلط استعمال ثابت نہیں ہوا چونکہ مجھے نا اہل کر نا ہی تھا اس لئے اقامہ کی آڑ لی گئی مجھے تو اتنا انصاف بھی نہیں دیا گیا کہ یہ اعتراف بھی کر لیا جاتا کہ چونکہ آپ کو پاناما میں سزا نہیں دی جاسکتی اس لئے اقامہ کا بہانہ نا اہلی کی بنیاد بنا دیا گیا ٗ
لوگوں کو بتادینا چاہیے تھا کہ کیس پاناما کا تھا پاناما میں کچھ نہیں ملا لہذا اقامہ پر سزا دی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو صحیح اور صاف بات سمجھ آ جائے ۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کہاکہ عدالتی فیصلہ آتے ہی اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگیا ٗ فیصلے کو وکلاء براداری ٗسمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص نے نہیں مانا ٗ میں کیسے تسلیم کرلوں ٗ ایسے فیصلوں پر عملدر آمد ہو جاتا ہے ٗ سزائیں مل جاتی ہیں لیکن انہیں کوئی تسلیم نہیں کرتا ٗ ہم کیسے اس فیصلے کو مان لیں ؟
ایسے فیصلوں کیخلاف عدالت میں اپیل ہو یا نہ ہو عوام یا تاریخ کی عدالتوں میں اپیلیں لگتی رہتی ہیں ان کے فیصلے بھی آتے رہتے ہیں میری پہلی اپیل پر تاریخ ساز فیصلہ جی ٹی روڈ پر عوام نے سنایا ٗچار دن چار راتیں فیصلہ فضاؤں میں گونجتا رہا، بری امام کی نگری سے داتا کی نگری تک عوام کے فیصلے کی گونج آج بھی آرہی ہے ٗمیری اپیل پر فیصلہ حلقہ این اے 120نے سنایا دو ٹوک اور واضح عوامی فیصلہ ہے یہ فیصلے انشاء اللہ مسلسل آتے رہیں گے
اس سے بڑا فیصلہ انشاء اللہ 2018میں آئیگا اور یہ عظیم فیصلہ مولوی تمیز الدین فیصلے سے لیکرآج تک کے فیصلوں کو بہا کرلے جائیگا ۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاناما ڈرامہ کا سامنا ہے ٗمقدمہ میں بار ثبوت مدعی کے بجائے ہم پر ڈال دیا گیا میں اور میرے بچے ان ہیروں سے بنی جے آئی ٹی کے سامنے کئی بار پیش ہوئے ان میں ایسے ہیرے بھی تھے جن کی اپنی انکوائریاں ہو رہی تھیں یہ ہیرے سب سے مقدس مخلوق بن چکے ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ خود بھی کارروائی نہیں کر سکتی ۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کہاکہ آج احتساب عدالت کے سامنے بھی پیش ہوگیا ہوں الحمداللہ میرا ضمیر اور دامن صاف ہے ٗاللہ کی مدد پر کامل ایمان ہے ٗاللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کے عوام بھی میرے ساتھ کھڑے ہیں اب بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں انصاف زندہ ضرور ہے۔بظاہر نشانہ میری ذات اور خاندان ہے اور سزا پوری قوم اورپورے ملک کو مل رہی ہے کروڑوں پاکستانیوں کو مل رہی ہے ٗآنیوالی نسلوں کو مل رہی ہے ٗایک ترقی کرتے آگے بڑھتے ہوئے جمہوری پاکستان کو دیکھتے دیکھتے تماشا بنا دیا گیا ۔
نوازشریف نے کہاکہ میں کوئی فلسفہ بیان نہیں کرر ہا ٗکوئی مشکل بات نہیں کررہا ہوں ٗسیدھی سادی بات کررہا ہوں خدارا ملک کو آئین کے مطابق چلنے دو ۔اگر آئین ٗ پاکستان کے عوام کو حکمرانی کا حق دیتا ہے تو ان کے حق کو تسلیم کرو ٗ حیلے بہانوں سے منتخب قیادت کو نشانہ نہ بناؤ ٗ 70سال سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے ٗ اسی کھیل نے پاکستان کو دو لخت کر دیا ہےٗ خدا کیلئے آئین کی راہ پر چلنے دو ٗ اہلیت اور نا اہلیت کے فیصلے کروڑو ں انسانوں کوکر نے دو ان کا یہ آئینی حق ہے.
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ انصاف کا عمل جب انتقام کا عمل بنادیاجائے توپہلی سزا فرد کے بجائے خود عدالتی عمل کو ملتی ہے ٗ فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو اور عدالتوں کی ساکھ نہیں رہتی ۔ نوازشریف نے کہاکہ ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے ندامت ہوتی ہے ٗ مولوی تمیز الدین سے لیکر نوازشریف تک ایک کہانی کے باب بکھرے پڑے ہیں ۔ نوازشریف نے کہاکہ ستر سالہ کینسر کا علاج تجویز کریں ٗمجھے ڈر ہے کہ پاکستان خدانخواستہ کسی سانحہ کا شکار نہ ہو جائے ٗ
میں جھوٹ پر مبنی ٗ بے بنیاد مقدمات لڑ رہا ہوں ٗ سزائیں بھی پارہا ہوں لیکن اس کے ساتھ میں نے حقیقی مقدمے لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے یہ قائد اعظم کا مقدمہ ہے ٗ پاکستان کے آئین اور بیس کروڑ عوام کا مقدمہ ہے ٗجمہوریت کا مقدمہ ہے ٗ عوام کے حق حکمرانی کا مقدمہ ہے ٗ ووٹ کے تقدس اور احترام کا مقدمہ ہے ٗ ستر برس کے دور ان نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے ٗانشا ء اللہ یہ مقدمہ لڑتا رہوں گا اور مجھے یقین ہے انشا ء اللہ آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی ۔
نوازشریف نے کہاکہ پوری قوم جان چکی ہے کہ میری نا اہلی کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ میں نے جو تنخواہ اپنے بیٹے سے وصول نہیں کی وہ میرا اثاثہ تھی میں نے وہ اثاثہ ظاہر نہ کر کے خیانت کی لہذا صادق اور امین نہیں رہا ۔کاش میرے اثاثے گھنگھا لنے والوں کی نظر کچھ اور اثاثوں پر بھی پڑتی جو میرے سیاسی اکاؤنٹ میں جمع ہیں ٗ جن کے وطن کے عوام واقف ہیں لیکن کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں ٗ دنیا بھر کی مخالفت ٗ ہر طرح کی لالچ اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کااعلان کس نے کیا ٗ
بندر گاہوں ٗ موٹر ویز ٗ ہائی ویز ٗ میٹرو ٗ ہوائی اڈے ٗ ڈیموں جیسے اثاثے پر کس کا نام لکھا ہوا ہے ٗ لواری ٹنل ٗ کچھی کنال نیلم جہلم کیا معمولی اثاثے ہیں ٗبجلی کے کار خانے معمولی اثاثے ہیں ٗ گیس کی قلت کا خاتمہ ٗ لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا معمولی اثاثے ہیں ؟۔غریب اور مڈل کلاس لوگوں کیلئے ٹرانسپورٹ ٗ سی پیک کی شکل میں 54ارب ڈالر کی سرمایہ کیا معمولی اثاثہ ہے؟، کراچی ٗ فاٹا اور بلوچستان میں امن کا قیام معمولی اثاثہ ہے ٗ ڈوبتی معیشت کو ترقی میں بدلنا معمولی اثاثہ ہے ٗ
عوام میں اعتماد اور یقین پیدا کر نا کوئی معمولی اثاثہ ہے ٗ روز گار کے شاندارمواقع پیدا کر نا معمولی اثاثہ ہے ٗ کاش ان اثاثوں پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے ٗ لیکن میرے لئے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ قوم ان اثاثوں سے واقف ہے اور قدوقیمت بھی جانتی ہے ٗقوم سب سے قیمتی اثاثہ ہے ،انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ،میں جانتا ہوں کہ میرا اصل جرم کیا ہے لیکن میں اپنے عوام کے ساتھ کھڑا رہونگا ٗ
ماضی میں طرح طرح کی عدالتوں میں پیشیاں ٗ مقدمے اور سزائیں مجھے عوام سے دور نہیں رکھ سکے اب عوام کے درمیان خلیج پیدا کر نے کی کوشش خواب رہے گی ٗکون ہوگا جو نہیں جانتا کہ 2013میں پاکستان کی کیا حالت تھی ؟کون ہے جو نہیں جانتا کہ 2017کا پاکستان کتنی منزلیں طے کر کے کہاں پہنچ چکا ہے ٗچار سالوں کے دور ان ہم نے جلسوں ٗ جلوسوں ٗ دھرنوں اور فتنہ فساد کے باوجود تعمیر و ترقی کا پہیہ نہیں روکنے دیا ہماری پوری کوشش ہے کہ ترقیاتی منصوبے ٗ سی پی وقت پر مکمل ہوں ٗ
میں انشا ء اللہ اپنی اور خاندان کی مشکلات کو پاکستان کی مشکلات نہیں بننے دونگا میں اس موقع پر عوام کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو میرے کندھے سے کندھے ملا کر کھڑے ہیں ٗحلقہ این اے 120کے عوام کا شکر گزار ہوں کہ مشکلات کے باوجود مسلم لیگ نوازکو فتح دلائی ان کا یہ فیصلہ ہماری سیاسی تاریخ میں سنگ میل کے طورپر یاد رکھا جائیگا ۔
نوازشریف نے کہاکہ مسلم لیگ (ن)کے کارکنوں ٗ رہنماؤں ٗ عہدیداروں اور اراکین پارلیمنٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ مکمل یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ جڑے رہے ہیں یہ جذبہ ہماری تاریخ اور جمہوری دور میں لکھا جائیگا اور انشا ء اللہ2018میں کامیابی کا سبب بنے گا نوازشریف نے کہاکہ پاکستان کا رخ غربت ٗ بد حانی کی طرف نہیں مڑنے دینگے ٗپاکستان کے تحفظ اور ترقی کی قسم کھائی ہے اپنے عہد وفا کیلئے جو بھی قیمت اور قربانی ادا کر نی پڑی کرتا رہونگا ۔