اسلام آباد (آئی این پی) وزیر مملکت کیڈ طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کی استدعا کو نہیں سنا گیا‘ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے سات روز کا وقت دیا جاتا ہے‘ عدالت نے دو گواہوں کو چار اکتوبر کو طلب کیا ہے‘ ہم صرف زبانی قانونی کی حکمرانی کی بات نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں‘ میڈیا کے احاطہ عدالت میں جانے کا فیصلہ عدالت
نے کرنا ہے۔ بدھ کو احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہوئے ہمارے وکیل نے جج سے استدعا کی کہ نیب قوانین کے مطابق جب ریفرنس دائر کیا جاتا ہے تو اس کی کاپی دی جاتی ہے اور سات دن کا ٹائم دیا جاتا ہے اس کے بعد فرد جرم عائد کی جاتی ہے اس کے لئے انہوں نے مختلف عدالتوں کے فیصلے ریفرنس کے طور پر پیش کئے جس میں 48گھنٹے میں آپ فرد جرم عائد نہیں کرسکتے لیکن جج نے ہماری استدعا کو نہیں سنا اور اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے اس کے بعد عدالت نے دو گواہوں کو طلب کیا ہے چار اکتوبر کو جس کے بعد کیس کو آگے لے کر چلا ج ائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نواز شریف اور جن کے خلا ریفرنس درج کئے جارہے ہیں آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ ہم عدالتوں اور قانون کا سامنا کررہے ہیں صرف قانون کی حکمرانی کی بات نہیں کررہے بلکہ عملی طور پر عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ استثنیٰ کے حوالے سے آج کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ استثنیٰ ابھی دیا گیا ہے۔ دو بینک کے افسران کو گواہان کے طور پر طلب کیا گیا ہے جن کا تعلق لاہور سے ہے اور کل 28 گواہ ہیں۔ عدالتوں کی مرضی ہے صحافیوں کو عدالت کے اندر آنے دیں
یا نہیں عدالتوں کے حکم کا اسلام آباد کی انتظامیہ عمل کرے گی جب تک عدالت اجازت نہیں دیتی انتظامیہ صحافیوں کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ میڈیا کے عدالت میں ہونے یا نہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔