اسلام آباد(ایکسکلوژو رپورٹ)نجی اخبار نے دعویٰ کیا کہ اعلیٰ سطحی اجلاس بارے لیک ہونے والی خبر کے ڈانڈے وزیر اعظم ہاؤس سے جا ملتے ہیں۔ متنازعہ خبر کے پیچھے چھپے کردار آہستہ آہستہ غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ نجی اخبار کے مطابق انکوائری کمیٹی سے اس ضمن میں کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا ، خبر دینے کے تانے بانے وزیر اعظم ہاؤس سے جا کر مل رہے ہیں۔ نجی اخبار کے ذرائع کے مطابق چوہدری نثار کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اس معاملے کو دبا کر رکھیں ، اس لئے چوہدری نثار نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کے عمل سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ نجی اخبار کے مطابق چوہدری نثار آج شام وزیر اعظم سے ہونے والی میٹنگ میں انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔
دوسری جانب نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ نگار ارشد شریف نے سوال کیا کہ کسی بھی واقعے میں مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں اور ہوتی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر قتل ہو جائے تو پولیس سب سے پہلے دیکھتی ہے کہ قتل والا آلہ کہاں سے آیا؟ یہ کس نے دیا؟ تو اس تناظر میں سرل المیڈا کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے؟ کیا یہ نہیں پتہ چل سکا خبر کس نے دی ہے؟ ارشد شریف کے سوال کے جواب میں سینئر صحافی صابر شاکر نے کہا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نواز شریف کو 4 سے 5 دن دیئے گئے ہیں کہ آپ کے پاس یہ وقت ہے ، اس وقت میں آپ ان معاملات کو نمٹائیں ورنہ ہم یہ معاملات خود نمٹائیں گے۔ سینئر صحافی صابر شاکر نے دعویٰ کیا کہ ملٹری قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت اگر ان معاملات میں ناکام رہی تو یہ کام ہم خود کریں گے۔ سینئرصحافی صابر شاکر نے کہا کہ تین لوگوں پر مشتمل حکومت نے انکوائری کمیٹی بنائی ہوئی ہے کہ یہ خبر کہاں سے آئی اور اس کمیٹی سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی اور حیران کن بات یہ ہے کہ کمیٹی کو انکوائری کیلئے 4یا5 دن کیوں چاہئیں؟ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خبر کس نے دی ہے؟ صابر شاکر نے دعویٰ کیا کہ اگر حکومت اس معاملے میں ناکام ہو گئی تو یہ معاملہ ملٹری خود دیکھی گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ تو فون کالز، میٹنگز کی تفصیلات اور سب کچھ سامنے لا کر رکھ دے گی۔ صابر شاکر نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ خبر کس نے لیک کی اور کیوں کی؟ بس وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
’’آرمی کیخلاف متنازعہ خبر معاملہ‘‘ ذمہ داروں کے قدموں کے نشان وزیراعظم ہاؤس سے ملنے لگے۔۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کا دعویٰ
17
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں