کراچی(نیوز ڈیسک) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاق، سندھ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کراچی میں رینجرز کے تحفظات کا حل تلاش کریں۔منگل کے روز سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے بدامنی کیس کے فیصلے پر علمدرآمد سے متعلق درخواست کی سماعت کی، سماعت سے قبل آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کے 159 واقعات ہوئے جن میں سے 83 واقعات کے مقدمے درج کیے گئے، 53 ملزمان گرفتار جب کہ 15 ملزمان پولیس مقابلوں میں مارے گئے، 25 مقدمات میں پولیس کی تفتیش جاری ہے،عدالت عظمی نے آئی جی سندھ کی اس رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیکر رپورٹ مسترد کردی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ خود کو آئی جی کہنے والے کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی ماتحتی میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ کی رپورٹ ہمارے لیے کاغذ کے ٹکڑے ہیں ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں، اس میں اعدادو شمار کے علاوہ کچھ نہیں، لگتا ہے آپ کچھ نہیں بتاناچاہتے۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کا کراچی پولیس پر کوئی کنٹرول ہی نہیںجس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس نامناسب ہیں، آئی جی سندھ کی بات پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی کارکردگی کے لحاظ سے یہ ریمارکس بالکل مناسب ہیں، اگر آپ کو اعتراض ہے تو ایک درخواست دیں، آپ کے افسر جھوٹ بولتے ہیں ، آپ کا جو افسر رپورٹ تیار کرتا ہے وہ جعلسازی کرتا ہے ، آپ کے افسران کو بریفنگ نہیں دیتے تو آپ بیٹھ جائیں ، ہم ان افسران سے پوچھ لیتے ہیں۔ چیف سیکرٹری صاحب آپ بتائیں محکمہ پولیس کیسے چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جلدی جلدی تبادلے ہوں گے تو افسران کام کیسے کریں گے۔ جب ایک پولیس افسر کا سال میں سات بار تبادلہ ہوگا اس کا مطلب اسے کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی ، ان حالات میں گڈ گورننس کیسے آسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مناسب جواب نہ دینے پر آئی جی سندھ کی سرزنش کی۔ چیف سیکرٹری صدیق میمن نے بھی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پے رول پر سات ملزموں کو رہا کیا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ جو ملزم آپ نے رہا کئے ان میں سے تین دہشت گردی کے سزا یافتہ ملزم تھے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ کون ملزم تھے اور ان کو کیوں رہا کیا گیا۔ آئی جی سندھ کے جواب نہ دینے پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ10 مارچ کو ان تینوں ملزموں کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رینجرز کو اختیارات دینے کا معاملہ حکومت کا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈر بیٹھ کر رینجرز کے اختیارات کو طے کرلیں۔ جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ یہ معاملات آپ دیکھ لیں ، اگر ہم دیکھیں گے تو مسئلہ ہوگا۔ بینچ نے آئی جی سندھ سے ٹارگٹ کلنگ کے زیر التوا 57 مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان مقدمات کی رپورٹ جمعرات تک جمع کرادی جائے۔سماعت کے دوران حکومت سندھ کے پے رول افسر نے 2015 میں پےرول پر رہا افراد کی فہرست عدالت میں جمع کرادی، پے رول افسر نے عدالت کو بتایا کہ اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی میں عمر قید کی سزا پانے والے 2 ملزمان کو چھوڑا گیا۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اغوا، دہشت گردی اور سنگین مقدمات میں سزایافتہ کو پے رول کی سہولت نہیں دی جاسکتی، بتایا جائے کہ اغوا برائے تاوان میں سزایافتہ مجرموں کو پیرول پر کیسے چھوڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 2012 سے اب تک پیرول پر رہاہونے والوں کی فہرست طلب کرلیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جن کی سزا2025 اور2027 میں ختم ہونی تھی، انہیں پے رول پر کیوں چھوڑا گیا اور حکومت نے کیوں یہ مہربانی کی۔چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اداروں کا ٹکراو¿ ختم کیا جائے، شہر کے وسیع تر مفاد میں قیام امن کیلئے مل کر کام کیا جائے، محکمہ پولیس میں کوئی بھی غلط کام ہوا تو ہم آپ سے پوچھیں گے، وفاق، سندھ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز رینجرز کے تحفظات کا حل تلاش کریں۔ کیس کی مزید سماعت جمعرات کو ہوگی۔