اسلام آباد(نیو زڈیسک)سینئر صحافی اور اینکر پرسن جاوید چوہدری نے اپنے دورہ ایران سے متعلق لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے نفسیاتی اور سماجی سطح پر جتنا والہانہ پن سعودی عرب میں دیکھا اتنا ہمیں ایران میں نظر نہیں آیا‘ سعودی عرب نے پاکستانی قیادت کے اعزاز میں شاہی عصرانے کا اہتمام کیا اور اس میں ملک کے تمام اہم لوگوں کو مدعو کیا تھا‘ سعودی افواج کے سربراہ بھی لنچ پر موجود تھے‘ وفد کے تمام ارکان کو محل میں بھی لے جایا گیا‘ ہم لوگ شاہ کے قریب تک پہنچ گئے‘ میں نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر ”سیلفیز“ بنائیں اور کسی نے مجھے منع نہیں کیا‘ ہم لوگ میٹنگ کے دوران محل کے مختلف کونوں میں بیٹھے رہے اور محل کا عملہ ہماری خدمت کرتا رہا‘ سعودی حکومت نے ہمیں شاہی ہوٹل میں بھی ٹھہرایا جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کا رویہ سخت تھا‘ ائیرپورٹ پر پروٹوکول کی گاڑیاں بھی کم تھیں‘ ہمیں ملاقات سے پہلے شہر میں ایک ایسے ہوٹل میں لے جایا گیا جس کا پورچ بہت چھوٹا تھا چنانچہ وزیراعظم کے سوا وفد کے تمام ارکان سڑک پر گاڑیوں سے اترے اور پیدل چل کر لابی تک پہنچے‘ ان میں آرمی چیف بھی شامل تھے‘ ایرانی حکومت اگر چاہتی تو اس سے بہتر انتظام کر سکتی تھی‘ یہ وفد کو سٹیٹ گیسٹ ہاﺅس بھی لے جا سکتی تھی‘ سٹیٹ گیسٹ ہاﺅس صدارتی محل کے قریب بھی تھا اور یہ وفد کےلئے باعث عزت بھی ہوتا‘ پاکستانی وفد نے آدھ گھنٹہ نائب صدراسحاق جہانگیری سے ملاقات کی اور ایک گھنٹہ صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات ہوئی‘ ملاقات کی صرف چھ لوگوں کو اجازت دی گئی‘ باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہا‘ اس دوران ایران کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار دنیا ٹی وی کے اینکر پرسن وجاہت سعید خان کا کیمرہ بھی چھین کر لے گئے‘ یہ کیمرہ بعد ازاں طارق فاطمی اور ایرانی وزیر خارجہ کی باہمی کوشش سے واپس ملا لیکن اس سے میموری کارڈ غائب تھا‘ یہ سلوک دنیا کے کسی ملک میں صدر یا وزیراعظم کے وفد میں شامل سینئر صحافیوں کے ساتھ نہیں ہوتا‘ ہم کیونکہ چند گھنٹوں کے وقفے سے ریاض سے تہران پہنچے تھے چنانچہ ہمیں اس رویئے سے زیادہ تکلیف ہوئی‘ ہم لوگوں نے سعودی عرب کو زیادہ مہمان نواز‘ حلیم اور گرم جوش پایا جبکہ اس کے مقابلے میں ایرانیوں کا رویہ سخت‘ سرد اور غیر سفارتی تھا‘ ایران کے سیکورٹی اہلکاروں نے بھی ہمیں دوست کی طرح ”ٹریٹ“ نہیں کیا ۔